Blog

  • Hello world!

    Welcome to WordPress. This is your first post. Edit or delete it, then start writing!

  • Society: Cable in Pakistan

    Cable in Pakistan

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    کیبل والوں کے کرتوت

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    یہ ذکر ہے دسمبر ۲۰۰۲ اور جنوری ۲۰۰۳ کا جب میں پاکستان کے ٹور پر تھا۔

    میں انگلش فٹبال کا شدت کی حد تک دیوانہ ہوں! اور جب مجھے معلوم ہوا کہ کیبل پر جنوبی افریقہ سے نشر کیے جانے والے ٹی وی چینلز سپرسپورٹس دکھائی دیتے ہیں! تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ میں اب انگلش فٹبال کو پاکستان میں بیٹھ کر بھی فالو کر سکتا ہوں۔

    شرمندگی

    ایک رات کا قصہ ہے کہ وقت علی الصبح تقریبا ۴ کا ہوگا۔! میں اکیلا بیٹھا میچ دیکھ رہا تھا۔! میچ کے اختتام پر میں نے چینلز کو zapکیا! تو ایک چینل کو دیکھ کر میرا سر شرم سے جھک گیا اور مجھے پسینہ آنے لگا۔ Cable in Pakistan Cable in Pakistan Cable in Pakistan Cable in Pakistan Cable in Pakistan

    مجھے چینل کا نام تو یاد نہیں مگراس پر Porno Film چل رہی تھی۔! میں نے اپنی زندگی میں کبھی گالی کا استعمال نہیں کیا مگر میرے منہ سے ان افراد کے لیے! جو اس کیبل کو آپریٹ کرتے ہیں، بے ساختہ گالی نکل گئی۔

    میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔!  بلکہ اس سوچ میں پڑ گیا کہ ہم لوگ آئے دن حکومت کے خلاف شکایات کرتے ہیں،! مذہب کے نام پر فسادات تک کرنے سے دریغ نہیں کرتے،! مگر کیا ہم لوگوں کا ضمیر اس قدر ماؤف ہو چکا ہے! کہ ہم اپنے گھروں میں عریانی دیکھتے ہیں مگر اس کے خلاف احتجاج نہیں کرتے۔

    قصوروار

    اب اس امر میں میں حکومت کو قصوروار نہیں ٹھہراؤں گا! بلکہ میرے نذدیک ہر وہ والدین اس میں قصور وار ہیں! جو اپنے نفس کو تسکین دینے کی خاطرگھروں میں کیبل لگاتے ہیں۔

    جو اپنے آپ کو بھول کر دوسروں کے چینلز دیکھنے کی خواہش مند ہوں! ان کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے ضمیر مر چکے ہیں۔! ہم اپنے سامنے عریانی ہوتی دیکھتے ہیں اُسے روکتے نہیں بلکہ بعید نہیں ہم خود اُس بُرائی میں حصہ لینے کے خواہش مند ہوں۔

    والدین کا اپنی اولاد کے لیے سب سے بڑا صدقہ اچھی تعلیم و تربیت ہے۔! نااعوذباللہ کیا خوب تربیت کر رہے ہیں اپنی اولاد کی،! انہیں اپنے آپ سے روشناس کرانے کی! بجائے انہیں کیبل پر اور دوسرے ممالک کی فلموں پر لگا رہے ہیں۔

    جب کسی قوم کی اخلاقی تباہی کا آغاز ہوتا ہے! توابتدا ایسے ہی ہوتی ہے کہ برائی اس قدر خوبصورتی سے دلوں کو ماؤف کر دیتی ہے! گویا وہی تسکینِ دل کا ساماں ہو۔

    قوموں کے مٹنے کا آغاز بے خودی سے ہوتا ہے۔! افسوس ناک بات یہ کہ ہماری تباہی کا آغاز ہو چکا ہے!

    Meri Tehreer – Society: Cable in Pakistan

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    مسعود – نومبر 2008

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]


    SC orders 500 Buildings in Karachi to raze

  • Mujhey Aisey Musalmano Sey Wehshat Hai

    Musalmano Sey Wehshat

    تنگ نظر

    ’’مغرب کے لوگ broad minded ہوتے ہیں، اُن میں سُننے کا، سوچنے کا، سمجھنے کا اور پھر عمل کرنے کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے۔! اگر کسی والدین کا کوئی بچہ کوئی دوسرا مذہب اپنا لے! تو بھی والدین اپنے بچے کواُسی طرح سمجھتے ہیں جیسے پہلے!‘‘
    اِن خیالات کا اظہار ڈاکٹر ذاکر نائیک نے Peace TV پر اپنے ایک خطبے میں کیا۔! موصوف مزید فرماتے ہیں: Musalmano Sey Wehshat

    ’’ جبکہ ایشیا اور بالخصوص بھارت (اوراسی طرح پاکستان) کے لوگ بہت زیادہ conservative واقع ہوئے ہیں۔اگر ہمارے ہاں ہمارے بچے کوئی دوسرا مذہب اپنا لیں تو ہم اُس سے ہر واسطہ ، ہر تعلق توڑ لیتے ہیں!‘‘ Musalmano Sey Wehshat Musalmano Sey Wehshat Musalmano Sey Wehshat Musalmano Sey Wehshat

    ڈاکٹر صاحب کی اِس بات کی صداقت کا تو میں خود شاہد ہوں کہ میں ایک جاب انٹرویو میں تھا، باتوں باتوں میں بات چل پڑی کہ میں کس مذہب سے تعلق رکھتا ہوں، میں نے بتایا کہ الحمداللہ میں مسلمان ہوں۔باس یہ سُن کر حیرت انگیز طور پر خوش ہوا اور کہنے لگا کہ میری بیٹی نے بھی اسلام قبول کیا ہوا ہے اور آگے اُس کے بچے بھی سبھی مسلمان ہیں!

    حال ہی میں پاکستان میں ڈاکٹر اسرار احمد جیسے عالم کی نسبت سے ہونے والےواقعات نے اِس بات کو بہت شدت سے تقویت پہنچائی ہے کہ ہم مسلمان خاص طور پر تنگ نظر ہیں۔ہمارے اندر کسی دوسرے کی بات کو سننے ، سوچنے اور سمجھنے کا مادّہ رتّی برابر نہیں! عمل تو ہمارے بہت پہلے مرچکے ہیں!

    فرقات

    نبی کریم ؐ کی قربِ قیامت کی سچائیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم میں ۷۳ فرقات بنیں گے، جن میں صرف ایک راہِ حق پر ہوگا۔

    اب جس فرقے کی بات سنی جائے وہی اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے۔ مگر اِن فرقوں کے ماننے والوں میں صبر اور برداشت سرے سے ناپید ہے۔ ایک دوسرے کو غلط، جھوٹا، منافق، مرتدکہنا تو کوئی بات نہیں ہم لوگ تو ایک دوسرے کو کافر تک کہنے سے گریز نہیں کرتے، جبکہ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ کون کتنا کافر اور کون کتنا مومن ہے؟ اِس کا علم صرف اور صرف اللہ ربّ العزت کو ہے اور کسی کو کافر کہنا بذاتِ خود ایک گناہ ہے! Musalmano Sey Wehshat Musalmano Sey Wehshat

    پھر ہم کس بنیاد پر دوسرے مسلمانوں پر ایسے فتوے جاری کرتے ہیں؟کس نے ہمیں یہ لائسنس دیا ہےکہ دنیا ہی میں اپنے مسلمان بھائیوں کو کافر تک کہہ دیں؟! بلاشبہ ہم جہالت اورتنگ نظری کی انتہا پر ہیں جہاں پر ہمیں اپنی سچائی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ Musalmano Sey Wehshat Musalmano Sey Wehshat Musalmano Sey Wehshat Musalmano Sey Wehshat

    یو ٹیوب پر میں ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں کسی نے ڈاکٹر اسرار احمد کو حرامی تک کہنے سے گریز نہیں کیا! استغفراللہ!!

    جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ نبی کریم ؐ کا فرمان ہے! مسلمان کو گالی دینا فاسق کا کام ہے! اور اِس کو جان سے مارنا کافر کا(صحیح بخاری)۔!

    بکھرا ہوا شیرازہ

    ڈاکٹر اسرار احمد دورِ حاضر کے شاید وہ واحد عالم ہیں جو کہتے ہیں   کہ فرقات کی جنگ کیسے ختم ہو،! ہم اُن باتوں پر ہی لڑتے رہیں گے جن پر ہم کبھی اتفاق کر ہی نہیں سکتے، تو کیا یہ بہتر نہیں کہ جن باتوں پر ہم اتفاق کر سکتے ہیں پہلے اُن پر متفق ہو کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں؟ Musalmano Sey Wehshat Musalmano Sey Wehshat Musalmano Sey Wehshat Musalmano Sey Wehshat 

    پر شاید ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی سوچ ہم میں نہیں! ہم اُس بکھری ہوئی قوم کا وہ بکھرا ہوا شیرازہ ہیں جسے جمع کرتے ہوئے مزید کئی سو سال لگ جائیں گے…

    یہاں پر غالب کا ایک شعر یاد آتا ہے:

    دوست! غمخواری میں میری سعی فرماویں گے کیا؟
    زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جاویں گے کیا؟

    جب تک ہم ایک بکھری ہوئی قوم کا شیرازہ سمیٹنے کی تدبیر کرینگے اُس وقت تک ہماری سوچیں اس قدر پختہ ہو چکیں ہونگی کہ ایک دوسرے کا قتل ہم پر ’واجب‘ ہو جائیگا!اور اِس کے لیے ہم کہیں نہ کہیں سے کسی نہ کسی آیت کا سہارا لیں گے یا پھر کہیں نہ کہیں سے کوئی نہ کوئی حدیث کو ڈھونڈ لائیں گے، کیونکہ اپنے مفاد کے لیے ہم اسلام کو بآسانی استعمال کر لیتے ہیں۔

    کیو ٹی وی

    بات مفاد کی چلی ہے تو یہ میرے لیے بہت سخت حیرت کی بات ہے! کہ ڈاکٹر اسرار احمدکی بات کو اچھالنے والا کون ہے : کیو ٹی وی!!!

    کیو ٹی وی جو کہ اے آر وائی ڈیجیٹل کا ایک چینل ہے۔! کیوٹی وی نے اسلام کی تعلیم کو انکرپشن کی نذر کردیا ہے،! کیو ٹی وی نے نعتوں کے پڑھنے کے انداز کو ایک ’’جدّت‘‘ بخشی ہے اور بیہودہ گانوں کے طرز پر نعتوں کو عروج مل رہا ہے۔! کیا اسلام میں یہ سب جائز ہے؟

    کون سی حدیث اِس بات کی طرف نشاندہی کرتی ہے کہ حمد و نعت کو گانوں کی طرز میں گایا جائے؟ Musalmano Sey Wehshat Musalmano Sey Wehshat Musalmano Sey Wehshat 

    کیو ٹی وی کے Mother Channel اے آر وائی پر ہندواِزم کی چھاپ لگتی چلی جا رہی ہے۔

    وہاں پر پیش ہونے والے ڈرامے اورپروگرام ہندو ذہنیت کی جانب لے جارہے ہیں۔

    چار پیسوں کی خاطر چینلز پر ایسے ہندوستانی اشتہار دکھائے جا رہے ہیں جن میں عورت کو اُن دو کپڑوں میں دکھایا جا رہا ہے جن کا اپنے شوہر کے سامنے بھی نام تک لینا ایک شریف عورت گوارا نہیں کرتی!

    اس قدر بڑھتی ہوئی بے غیرتی اور عریانی کیو ٹی وی کے ’عالموں‘ کی نظر میں کیوں نہیں آئی کہ وہ اِس پر کوئی فتویٰ دیں؟؟ مگر نہیں جہاں ہم مسلمانوں کو مفاد ہو وہاں ہر بات گوارا ہے!

    میڈیا

    واپس آتے ہیں ڈاکٹر ذاکر نائیک کی باتوں کی جانب۔ موصوف فرماتے ہیں کہ :

    ’’مغرب میں اسلام کی تبلیغ کرنا قدرے آسان ہے،! کیونکہ وہاں پر لوگ بات کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں،! یہی وجہ ہے کہ گیارہ ستمبر کے بعدمغرب میں اسلام بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔! جبکہ مشرق میں لوگوں کی سوچیں محدود ہیں اور انہیں بدلنا بہت مشکل امر ہے‘‘

    ڈاکٹر صاحب کی بات میں بہت سچائی ہے۔ Musalmano Sey Wehshat Musalmano Sey Wehshat Musalmano Sey Wehshat

    مغرب میں اگر کوئی تعصب پایا جاتا ہے تو وہ میڈیا کا پھیلایا ہوا ہے! میڈیا ایک ایسا مافیا ہے جو لوگوں کی ذہنیت کو قید کر لیتا ہے! اور پھر اُن پر وہی رنگ جما دیتا ہے جو اُسے منظور ہو۔

    ایک گھنٹے کے انٹرویو میں اگر ایک پانچ منٹ کی بات اُن کی مرضی کی ہوتو وہی بات بتاتے ہیں۔اور اگر ایک بات کے ایک جملے کے دورخ ہونگے تو وہ رخ بتائیں گے جو انکو افراتفری پھیلانے میں مدد دے سکیں!

    یہ بات بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنے ایک خطبے کے دوران کہہ چکے ہیں کہ میں مغربی(یا مشرقی) میڈیا کو نہیں مانتا۔

    یہ صرف وہ بتاتے ہیں جو اِن کی مرضی کی بات ہو۔ ہمارے ہاں بھی میڈیا کو ایسی ہی غلطی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔

    ناکافی

    کیو ٹی وی نے جو کٹ دکھاکر بات کی ہے وہ ناکافی ہے۔ دین ایک ایسا معاملہ ہے جس کو سمجھانے کے لیے بہت بڑے تدبر کی ضرورت ہے۔ایک عالم کو ہر اُس پہلو سے سمجھانا پڑتا ہے جس سے بات لوگوں کی سمجھ میں آ جائے۔

    جامع ترمذی کی جس بات کو بنیاد بنا کر ڈاکٹر اسرار نے بات کی ہے کیا وہ جھوٹ ہے؟؟

    اگر وہ جھوٹ ہے تو جامع ترمذی کی صداقت مکمل طور پر شک میں پڑ جاتی ہے، اور اگر وہ بات سچ ہے تو اِس بات پر (بیجا) ایکشن لینے والے مسلمانوں کو اپنے کردار پر نظر ثانی کرنی چاہیے!

    بات کو مکمل ہونے سے پہلے کاٹ دینا اُن لوگوں کی علامت ہے جو تنگ نظری کا شکار ہوں، اگر کیو ٹی وی کے پاس ڈاکٹر اسرار کا وہ سارا خطبہ ہے تو اُسے پیش کیا جائے کہ یہ بات کہنے سے اُنکی کیا مراد تھی؟

    حقیقت

    ہم مسلمان اکثر وہ حقیقت چھپا لیتے ہیں جس میں کسی رُسوائی کاخوف ہو!

    ہم یہ بات تو فخر سے بتاتے ہیں کہ صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں سے بیت المقدس فتح کیا، مگر یہ چھپا لیتے ہیں کہ ہمارے مسلمان لیڈروں نے ماضی میں بھی تاج و تخت کی خاطر ظلم وہ تشدد کے بازار گرم کیے رکھے ہیں۔

    یوں تاج کی خاطر بھائی نے بھائی کی آنکھیں نکلوائیں، بیٹوں نے باپ کے قتل کیے، خاندان کی خاندان آپس میں جنگوں جدل میں لگے رہے!

    درحقیقت اِن باتوں پر پردہ پوشی کرنا کوئی غلط بات نہیں! مگر جب ایک عالم ، جس نے اپنی عمر اسلام کی تبلیغ کے لیے وقف کر رکھی ہو، جب وہ کوئی گتھی سلجھانے کی کوشش کرتا ہے تو بہت ساری باتوں کا حوالہ دے کر بات کرتاہے تاکہ عوام کو بات سمجھ آجائے۔

    ہمارے نام نہاد علمأ، مولویوں، مفکروں میں ایک عیب یہ بھی ہے کہ ہم باتوں کو سمجھانے کے بجائے حفظ کرانے کی کوشش کرتے ہیں!

    مان ۔لو۔اور۔سوال۔نہ۔کرو کی بنا پر اسلام کی تعلیم دی جاتی ہے!

    سوال نہ کرو

    میں نے ایک دوسرے مضمون ’’کہاں سے شروع کروں‘‘ میں اپنے ایک تجربے کا ذکر کیا ہے! کہ مجھے ایک بار ایک محفل میں شرکت کا موقع ملا جہاں پر کسی فرقہ کی بیعت کروائی جا رہی تھی۔

    میں بھولے سے پوچھ بیٹھا کہ بیعت کا مطلب کیا ہے! اور اِس کی مجھ پر کیا ذمہ داریاں ہیں تاکہ مجھ پر باور ہو سکےکہ میں نے اِس اہم ترین ذمہ داری کوکس احسن طریقے سے اُٹھا سکوں،! مجھے جواب ملا جو کہا گیا ہے کر دو سوال نہ کرو!

    مجھے یقین ہے کہ اُس مولوی کو خود معلوم نہیں کہ بیعت کس رحمت یا زحمت کا نام ہے!

    نبی کریم ؐ کا فرمان ہے کہ دین کو آسان بناؤ! اِسے مشکل نہیں، ہم لوگوں نے اپنی اپنی عقل اور عمل کی بنا پر اسلام کو ایک انتہائی پچیدہ دین بنا دیا ہے۔

    اعتراف

    آج میں اپنی ذات کے حوالے سے یہ اعتراف کرتا ہوں۔

    میں نے مسلمان ہونے کے ناتے سے یہ تو سُنا ہوا تھا کہ شراب اسلام میں حرام ہے اور حرام اِس لیے ہے کہ شراب دماغ کو ماؤف کر دیتی ہے اور انسان اچھائی اور بُرائی میں تمیز نہیں کر پاتا مگر اِس کی اصل اصل وجہ اِس واقعہ کے بعد میری سمجھ میں آئی ہے کہ ابتدائے اسلام میں جب ابھی شراب مکمل منع نہیں ہوئی تھی تو شراب کی حالت میں اصحابہ کرام سے نماز میں ایک غلطی سرزد ہو گئی  ! عقل کی بات ہے ! لوگوں کو بتاؤ کہ جب اصحابہ کرام سے غلطی ہو گئی تھی تو ہما شما کس ضمرے میں آتے ہیں؟

    مجھے شراب سے جتنی نفرت پہلے تھی آج اِس واقعے بعد اور زیادہ ہو گئی ہے۔آج ہمارے نام نہاد مولویوں میں یہ نقص ہے کہ وہ صرف اتنا کہتے ہیں: یہ حرام ہے بس! مگر حرام ہونے کی وجہ نہیں بتاتے۔آج جبکہ اسلام میں انسانی زندگی سے وابستہ ہر بات کی کوئی نہ کوئی معقول وجہ ہے کہ یہ بات ایسے کیوں ہےآج، بلاوجہ اسلام میں کسی شے پر بندش نہیں لگائی گئی جسکا کوئی خاطر خواہ جواز نہ ہو!

    گستاخی

    ہمیں اِس بات سے تو اتفاق ہے کہ دنیا میں کوئی انسان آج تک ایسا نہیں آیا جو کسی قسم کی غلطی سے پاک ہو!

    اگر کوئی اِس کے قریب ترین تھا! وہ وہ نبی کریم ؐ کی ذاتِ مقدس تھا!  حالانکہ ہم یہ حقیقت بھی مانتے ہیں کہ نبی کریم ؐ کا سینہ مبارک چاک کیا گیا تھا! اور اُس سے ہر انسانی حوس نکال دیا گیا تھا! اور نبی کریم ؐ کو انسانیت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائزفرمایا گیا تھا!

    (جبکہ کسی بھی دوسرے صحابہ کے متعلق ایسی کوئی بات رقم نہیں تو کیا اصحابہ سے غلطی نہیں ہوسکتی؟)۔!

    جب اسی ایک غلطی کا حوالہ دیکر ایک عالم ایک دینی بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہے! تو ہم یہ بات ماننے سے انکار کرتے ہیں! جو جامع ترمذی میں مذکور ہے ۔

    یوٹیوب کے جو لنک میں نے دیکھے ہیں،! اُن سے اِس بات کا بالکل غمازہ نہیں ہوتا کہ ڈاکٹر اسرار نے حضرتِ علی کرم اللہ وجہہ کی شانِ عالی میں کسی قسم کی گستاخی کی ہے یا گستاخی کرنے کی کوشش کی ہے،! بلکہ سچ یہ ہے کہ انہوں نے ایک بات سمجھانے کی کوشش کی ہے !

    دجال

    نبی کریم ؐ کی سچائیوں میں سے ایک سچائی یہ بھی ہے کہ قیامت سے پہلے کئی دجال پیدا ہونگے۔! وہ دجال ضروری نہیں انسانی صورت میں ہی ہوں!

    ہمارے لیے ایک بہت بڑا لمحۂ فکریہ ہے!

    کیونکہ میرے نزدیک میڈیا بھی کسی دجال سے کم نہیں! جو صرف وہ بتاتا ہے جس سے دنیا میں انتشار پھیلے۔

    کیو ٹی وی نے اسلام کی کوئی ایسی خدمت نہیں کی کہ جس سے اسلام کو سمجھنے میں آسانی ہو، بلکہ مجھے ایسے ٹی وی چینلز اور اُن پر بیٹھے ’علمأ‘ سے شدید اختلاف ہے! جو اُس شے کو جائز قرار دے دیتے ہیں جو اُن کے مفاد میں ہوں اور وہ باتیں اُن کی نظر میں نہیں آتیں، جو سرِ عام بے حیائی، عریانی، جسمانی نمائش اور گناہ کی طرف راغب کرے۔

    مجھے ایسے مسلمانوں سے اختلاف ہے

    مجھے ایسے مسلمانوں سے اختلاف ہے! جو قرآن اور حدیث کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کریں!

    فحش گانوں کی طرزوں پر نعت گوئی کیوٹی وی کی ایک نئی بدعت ہے! اور ایسی بدعتوں کا اجرأ کہاں تک درست ہے؟!

    دنیا میں انفارمیشن کی بھرمار ہے اور ہوتی جارہی ہے، مگر علم کی اتنی ہی کمی ہے۔

    ہر ایرا غیرا انٹرنیٹ پر بیٹھ کر اپنی اپنی سوچوں کا زہر اگل رہا ہے، جو چاہے اُٹھ کر اپنے موبائل سے فلمیں بنا کر یوٹیوب پر شیئر کردیتا ہے۔ اپنی سوچ پر طرح طرح کے مضامین لکھ کر انٹرنیٹ پر بھیج دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اُس کا علم کسی عالم کے علم سے بہت زیادہ وسیع ہے!!

    ایسے مسلمانوں سے مجھے وحشت ہے!

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]
    مسعود – ستمبر 2008
    [mks_separator style=”solid” height=”2″]
  • Aazadi Aur Pakistani Zameer

    Aazadi Aur Pakistani Zameer

    14 اگست – آزادی

    ۱۴ اگست آیا اور آکرچلا گیا! ہماری آزادی کے اکسٹھ سال مکمل ہوئے!

    جا بجا جلسے جلوس ہوئے، تقریریں جھاڑی گئیں،مہنگے مہنگے الفاظ کا سہار لیکر عوام کے دماغوں کو محصور کیا گیا۔
    جا بجا اِس بات کا واویلہ کیا گیا کہ پاکستان کو حاصل کرنے کے لیے ہم نے کتنی قربانیاں دی ہیں۔! کتنے سروں کا نذرانہ پیش کیا گیاہے، کتنی شہ رگیں کٹوائی گئی ہیں، کتنی عصمتیں لوٹی گئیں! اور کتنی سہاگنوں کے سہاگ سپردِ تلوار ہوئے، کتنی ماؤں کے پیٹوں میں بن کھلی کلیوں کو برچھیوں سے چھیدا گیا! اور کیسی کیسی لہو کی ندیاں بہیں کہ ٹرینوں کی ٹرینیں خون میں نہلائی ہوئی لاہور ریلوے سٹیشن اور دوسرے سٹیشنوں پرآئیں!
    Aazadi Aur Pakistani Zameer

    سب مغالطہ آرائیاں!

    بلکہ یہ پاکستانی عوام کے جذبات سے کھیلنے کی ایک ایسی گھنوؤنی کوشش ہے جو سالہاسال سے استبدادی سوچ رکھنے والے طبقے نے ایک ایسی عوام پر روا رکھی ہے! جو خود سے سوچنے اور سمجھنے کے قابل نہیں۔ ہر سال وہی الفاظ، وہی باتیں، وہی خوف، وہی تماشا!

    تحفہ

    سچ تو یہ ہے کہ پاکستان اللہ تبارک تعالیٰ کا عطا کردہ وہ تحفہ ہے! جو بغیر کوئی گولی چلے سیاسی مفاہمت کے میز پر محمد علی جناح کی اعلیٰ ترین قائدانہ صلاحیتوں کا نتیجہ ہے! کہ سیاسی میدان میں اپنا حق کیسے حاصل کیا جاتا ہے۔
    حصولِ پاکستان کے لیے کوئی جنگ وجدل نہیں ہوئی! کسی قوم نے کسی دوسری قوم پر کوئی غاصبانہ قبضہ نہیں کیا، کسی ملک نے کسی دوسرے ملک پر عسکری یلغار نہیں کی جس کے نتیجے میں ملکوں کی تقسیم ہوئی ہو!
    بلکہ یہ قائد اعظم اور ان کے سیاسی رفقأ کے اعلیٰ ترین سیاسی ظرف کا پھل ہے! اور اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جو ہم پر۲۷ رمضان المبارک ۱۹۴۷کو نازل ہوئی۔
    یہ بھی ایک تلخ ترین سچ ہے کہ تقسیم کے بعد قتل و غارت کا جو بازار گرم ہوا ہے، تاریخ میں اُسکی مثال شاید ہی کسی دوسری جگہ ملے۔ شروع میں قتل و غارت کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ سو فیصد سچائی پر مبنی ہے بلکہ حالات اِس سے بھی ابتر تھے۔ برِصغیر پاک وہند وہ خطۂ ارض ہے جہاں پر لوگ آگ کی طرح تپتی ہوئی تربیت لیے ہوئے ہیں۔برصغیر میں (مذہبی، طبقاتی، خاندانی،لسانی،فرقہ وارانہ، معاشرتی، سماجی اور تہذیبی) دشمنیاں ایسی ہیں کہ ایک دشمن اگر کسی دوسرے دشمن کے پاس سے گزر جائے تو اُس قتل کر دیا جاتا رہا ہے، گالی گلوچ کرنا، ہاتھا پائی کرنا تو عام فعل ہے ۔ہمارے ہاں اُس وقت تک کسی کو مرد نہیں سمجھا جاتا جب تک وہ گالی گلوچ کا استعمال نہ کرے! ہمارے ہاں قتل مرد کی شان سمجھا جاتا!ذرا پاکستان کے حالات کا جائزہ لیں،انسان کا قتل کرنا ایسا ہی ہے گویا کو کیڑامکوڑا مارا گیا ہو، خون پانی سے سستا ہے!
    Meri TehreAazadi Aur Pakistani Zameer

    کدورتیں

    وہ خطۂ ارض جہاں صدیوں سے ہندو، سکھ، اور مسلمان ساتھ ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے۔! انہیں اپنے آباؤ اجداد کے بسائے ہوئے ہنستے بستے گھر چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑی،! اپنا رہن سہن، اپنی جائیدادیں تک چھوڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا پڑا! توجب وہ لوگ ایک دوسرے سے ٹکرائے تو خون کی وہ ندیاں بہیں جن کا ذکر اُوپر کیا گیا ہے۔
    اورجن واقعات کو لے کر ہماری نوجوان نسل کے دماغ کی غلط تربیت کی جارہی ہے۔ ذہنی طور پر شکستہ قوم کے اِس قتل و غارت کی وجہ سے پاکستان کا حصول نہیں ہوا، بلکہ پاکستان کے حصول کی وجہ سے یہ قتل و غارت ہوئی ہے۔

    تحفہ

    ورنہ تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ محمد علی جناح جیسے اعلیٰ ظرف سیاسی لیڈرنے کبھی یہ نہیں کہا تھاکہ اگر ہمیں ہمارا مقصد حاصل نہ ہوا تو ہم سڑکوں پر نکل آئیں گے، ہم یومِ سیاہ منائیں گے، ہم بھوک ہڑتالیں کریں گے، دنگافساد کریں گے۔ یہ وہ ہتھکنڈے ہیں جو اوسط درجے کے سیاسی لیڈر استعمال کرتے ہیں، محمد علی جناح اِن بُرائیوں سے پاک تھا!
    پاکستان اُسکی اور اُسکے رفقأ کی انتھک سیاسی محنتوں کا نتیجہ ہے اِسے کسی قتل و غارت سے منسوب نہ کیا جائے!بلکہ ہمیں اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم محمدعلی جناح کا سامنا کرسکتے ہیں؟
    چلیں لمحہ بھر کو ہم یہ تصورکرہی لیتے ہیں کہ یہ سب قربانیاں حصولِ پاکستان کے لیے تھیں، تو پاکستان بنانے والوں نے توپاکستان بنا دیا اور چل بسے، قربانیاں دینے والوں نے اپنے لیے جنت خرید لی ۔ پھر کیا ہوا؟

    بربادئ وطن

    وہ ملک جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، وہ ایک ایسی قوم کے ہاتھوں میں آگیا جس نے شاید اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو ایک mustسمجھ کر ناشکری کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے!
    ہم نے اللہ کی کون کون سے نعمت کا شکر ادا کیا ہے جو ہم اپنی آزادی کی دیکھ بھال کرتے؟
    اپنی آنکھوں کے سامنے ہم نے اِس ملک کو ٹکڑے ہوتے دیکھا ، ہم کچھ نہیں کر سکے، اپنے سامنے اِس ملک کو بار بار لٹتے دیکھا ہم نہیں بولے، اپنے سامنے مفادپرستوں کوملک کا نظام سنبھالتے دیکھا اور ’وقت کے ساتھ سمجھوتہ‘ سمجھ کر چپ سدھار لی۔
    اپنے سامنے آئے دن اپنی بہو بیٹیوں کو بے آبرو ہوتے دیکھا اور ہمارا ضمیر میٹھی نیند سوتا رہا یہاں تک کہ ملک کی بچیوں کو عیاشیوں کے لیے استعمال کیا جاتا رہا تاکہ اپنی جیبیں ڈالروں سے بھری جاسکیں!

    جوش اور ہوش؟

    ایک کافر جب نبی کریم ؐ کی ذاتِ مقدس پر حملہ کرتا ہے تو ہمارا خون جوش میں آجاتا ہے اور ہم بائیکاٹ پربائیکاٹ کا مطالبہ کرتے ہیں، مگر ہمارے گھر میں ہندوستانی فلموں سے پھیلنی والی عریانی کا وہ عالم ہے کہ کبھی مجرا دیکھنے کے لیے ہیرا منڈیوں کا رخ کیا جاتا تھا مگرآج کسی بھی میوزک فیسٹیول پر شریف گھروں کی لڑکیوں کا مجرا ایک عام فعل بن گیا ہے۔
    ہمارے ڈراموں میں مجرے کیے جارہے ہیں کیبل پر فحش فلمیں چلتی ہیں مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
    کہاں ہے ہماری باضمیر قوم، کہاں ہے آپ کے بائیکاٹ کرنے کا جذبہ؟ مگرنہیں ہم وہ زندہ ضمیر قوم ہیں جو سمجھتی ہے کہ فلموں کا کیا ہے، یہ تو چند گھنٹوں کی تفریح ہے!
    ہم اگر فنکار ہوں تو خود کو اُس وقت تک نامکمل سمجھتے ہیں جب تک ہندوستانی فنکاروں کو اپنے ساتھ شامل نہ کرلیں، کیا معیار ہے ہماری زندہ ضمیری کاجو صرف چودہ اگست پر ہی بیدار ہوتی ہے اور ہندوستانیوں کے ڈھائے ہوئے مصائب یاد آتے ہیں؟
    اور جو گھرو ں میں تفریح کے نام پر عریانی پھیلائی جارہی ہے، وہ قابلِ قبول ہے!
    (اِس بار کوپن ہیگن میں جو ۱۴ اگست کی تقریب ہوئی اُس میں بھی انہی قربانیوں کا ذکر شدت سے کیا گیا جو شروع میں بیان کی گئی ہیں مگر جب گانے بجانے کی باری آئی تو ایک ہندوستانی کو سٹیج پر بلایا گیا ۔ کیا خوب پاکستانیت کا پرچار ہے!)

    میڈیا

    ہمارا میڈیا ہر بند سے آزاد ہو جاتا ہے! نئی نئی رسمیں دریافت ہونے لگتی ہیں!
    ذرا یوٹیوب پر لاہور کے سٹیج ڈراموں میں ہونے والے حالات پر نظر ڈالیں، عریانی کا ایک بازار گرم ہے مگر ہمارے تماش بین ضمیر اسے انٹرٹینمنٹ سمجھ کر خاموش ہیں۔
    یوٹیوب پر لڑکوں اور لڑکیوں میں پھیلتی ہوئی بے غیرتی پرنظر دوڑائیے۔
    اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے دوسرے افراد کی ذاتوں کو سرِعام اچھالنا،! دوسروں کی عزتوں کو رسوا کرنا ہمیں ایک تفریح لگتا ہے،! جبکہ اپنی عزتوں کے نام پر ہم جانیں دے دیتے ہیں۔
    ہم نے کنبہ پروری کی انتہا کردی ہے۔ محنت سے ہم دل چراتے ہیں،کوئی دوسرا کچھ ترقی حاصل کر لے تو اُس سے حسداِس انتہا تک کرنے لگتے ہیں کہ اُس کی ذات کو مسخ کردیتے ہیں۔
    تعلیم سے دور بھاگتے ہیں اور چار لفظ سیکھ کر خود کو عالموں سے زیادہ عاقل سمجھ لیتے ہیں،! مذہب کو فرقوں میں بانٹ دیا ہے! اور فرقوں پر کفر کے فتویٰ دیتے ہیں، ہم شخصیت پرست ہیں، عمل نہیں دیکھتے ،ہم ذخیرہ غوض ہیں، عوام کو ہر معاملے میں تکلیف دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

    سرکار

    ذرا پاکستانی سرکاری اداروں کی حالت دیکھیں جاکرہر بندہ جو کسی بھی عہدے پر ہو خود کو ناخدا سمجھتا ہے،! جہاں جہاں سے ہمیں اپنا فائدہ نظر آئے ہم رتی برابر دریغ نہیں کرتے،ہر معاشرتی برائی کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھکر بھی خموش ہیں۔! باضمیری کی کیا عمدہ مثالیں ہیں ہمارے ہاں!
    آسمانی آفات بھی ہمارے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کے لیے ناکافی ہیں! اگر سیلاب میں مردہ لاشیں ہمارے پاس سے گزریں تو ہم لاش کی حرمت کو پسِ پردہ ڈال کر اُسکی جیب تلاشی کرتے ہیں،! ہاتھوں پر سے گھڑیاں اُتار لیتے ہیں، ظاہر ہے مرنا والا مر گیا، دولت اُس کے کس کام کی؟؟
    ہمارے سامنے زلزلہ سے ایک دنیا تباہ ہوتی ہے۔! بستیوں کی بستیاں برباد ہوتی ہیں، خاندانوں کے خاندان اُجڑتے ہیں،! مگر ہم بُت بنے تماشا دیکھتے ہیں کہ دیکھیے اب کیا ہوتا ہے!
    امدادی رقوم سے پیسہ والا پھر سے امیر تر ہو جاتا ہے،! اور اصل حقدار ایک مدت گزر جانے کے بعد بھی منتظرِ بہترئ فردا ہیں! اور مگر ہم اِس پر بھی اپنے ضمیروں کو مطمئن کر لیتے ہیں کہ یہ کام ہمارا نہیں!

    آزادی کے ساتھ پابندی!

    ہماری تقریروں میں حصولِ پاکستان کے وقت دی گئی قربانیوں کی کتنی اہمیت ہے! اور اُس کے بعد جو اِس پاک سرزمین کے ساتھ ہم نے کیا ہے، وہ قطعاً قابلِ بحث نہیں!
    آزادی کا مفہوم تو ہم نے کبھی سمجھا ہی نہیں۔! ہمیں اگر ’روشن خیالی‘ کی دعوت دی جائے تو ہم اُس روشن خیالی کو عریانی میں بدل دیتے ہیں۔!
    کسی نے کسی جگہ لکھا ہے کہ آزادی ہو تو جرائم پر قابو پانا آسان ہوتا ہے۔! میں اِس سوچ کے حق میں نہیں ہوں: آزادی اگر ملت کی آزادی ہے! تو اُس کے ساتھ بھی(!) کچھ پابندیاں بھی آتی ہیں۔
    آزادی کا مفہوم یہ ہر گز نہیں کہ ہم خود کو ہر بند سے آزاد سمجھ لیں! ایک آزاد ملک کے بنائے ہوئے قوانین کا پاس نہ کریں!
    مجھے ایک بار پاکستان کے دورے پر کسی نے ٹریفک اشارے کو کاٹنے! پراور میرا اُسے منع کرتے ہوئے،! کہا تھا کہ یہ وطن ہمارا ہے اور یہاں پر ہمارا قانون چلتا ہے،! ہم اپنی مرضی کے مالک ہیں!
    اگر ہر انسان اپنی مرضی کا مالک ہو تو ملک تباہ ہوجاتے ہیں!  –  ایسے میں آپ کس آزادی کا راگ آلاپیں گے؟
    آزادی کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اپنا کام نکلوانے کے لیے ہم ہر برائی کو کر گزریں،! جو ہمارے مفاد کی راہ میں آئے اُسکا صفایا کروا دیں۔
    درحقیقت ہم نے اپنی سوچوں کو ہر بند سے آزاد سمجھ لیا ہے! جبکہ علامہ اقبال کے نزدیک آزادئ خیال شیطان کی ایجاد ہے۔

    جوابدھی

    اپنے خیالات کو اتنی ہی آزادی دینی چاہیے جو اپنے مذہب، دین، معاشرے، ملک، اور ضمیر کی جوابدہ ہو سکے! اِس کے علاوہ ہر آزادی شیطانیت ہے! (مذہبی اور دینی حدود سے آزادی گناہوں میں ڈال دیتی ہے،! معاشرتی اور ملکی رسموں اور قوانین سے آزادی باغی اور مجرم بنا دیتی ہے! اور ضمیری آزادی غفلت اور خود فراموشی کی طرف لے جاتی ہے!)

    پاکستان عوام کا ضمیر مردہ نہیں یہ بات ہم نے زلزلے والے دن بھی دیکھ لیا تھا!

    جہاں اتنا اندھیرا ہے وہاں پر روشنی کی کرنیں بھی آرہی ہیں۔ انسانی ہمدردی میں ڈوبے ہوئے لاتعداد افراد ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں وقف کردی ہیں۔ مگر یہ انفرادی کوششیں ناکافی ہیں۔

    کڑوا سچ تو یہ ہے کہ اجتماعی ضمیر ایک ایسی نیند سویا ہوا ہے! جس کا ہر راستہ ہمیں تباہی کی جانب لے جا رہا ہے۔! اگرزلزلے اور سیلاب کی صورتوں میں پیغامِ عذابِ الٰہی بھی اِس نیم مردہ ضمیر کو جگانے کے لیے کافی نہیں! تو میرا نہیں خیال کہ ہم کبھی بیدار ہوسکیں۔!

    ایسے میں ایک مسیحا کا انتظار کیجیے!

    کسی بات کا مجھے نہ دینا الزام میاں
    میرا نہیں، دوسروں کا ہے یہ کام میاں
    بکتی ہے تو بکے ناموس سرِ عام میاں
    ہم تو بیٹھے ہیں درِ جاناں پہ سرِ شام میاں
    ہو نہ جائے تم سے کچھ تلخ کلام میاں
    اپنے الفاظ کو ڈالو تم کوئی لگام میاں
    بند کرو فضول ہے یہ ترا پیغام میاں
    اِس دیوانگی میں آئے نہ مرا نام میاں
    ’جیو اور جینے دو ‘کے ہیں ایام میاں
    ‘خموشی’ میں پاؤ تم بھی اپنا انعام میاں

     

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    مسعود کوپن ہیگن ۱۹ اگست ۲۰۰۸

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    Muhammad Ali Jinnah, Pakistan Independence Day, Jashn e Azadi, Jalsa Jaloos, taqseem hind, a division of India, Quaid e Aazam,

    Shab-o-roz

  • Dar’alHakoomat: Duabi

    Dar’alHakoomat: Duabi
    خبر: مسٹر زرداری کی مصروفیات کی وجہ سے مذاکرات دبئی میں ہوئے: نواز شریف!
    [mks_separator style=”solid” height=”1″]

    فلیش بیک:

    یہ بات ہے بیسویں صدی عیسوی کے پہلے عشرے کی! جب علامہ اقبال حالات سے دل برداشتہ ہو کر مستقل طور پر لندن چلے گئے۔! اور شاعری کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہنے کا اِرادہ باندھ لیا۔! مگر علامہ کے دوست شیخ عبدالقادر بیرسٹر نے اصرار کیا کہ اقبال اپنی شاعری کو جاری رکھیں۔! کیونکہ اُنکی شاعری ایک عام ضمن کی شاعری نہیں بلکہ ایک سوئی ہوئی قوم کے لیے پیغامِ خودی ہے۔! اقبال کے اُستاد سر ٹھامس نے بھی انہیں شاعری کو بحال کرنے پر مجبور کیا! اور کہا کہ اقبال آپ کی قوم کو آپ کی شاعری کی ضرورت ہے۔! اقبال نے انگلستان کو خیرباد کہا اور ایک بار پھر خطۂ ہندوستان میں آ کر! اپنی شاعرانہ سوچ سے ایک سوئی ہوئی قوم کو بیدار کیا۔

    قائدِاعظم ہندوؤں کی ہٹ دھرمی اور مسلمانوں کی منافقت سے تنگ آ کر ہمیشہ کے لیے انگلستان چلے گئے۔! اس بار علامہ اقبال نے انکے اندر حب وطنی اور اور اسلامی اقتدار کا نطف بویا اور قائداعظم واپس ہندوستان آ کر اپنی عوام کے جدوجہد کی تکالیف سہنے لگے۔

    فلیش بیک:

    دبئی میں خودساختہ جلا وطنی کاٹنے کے بعد مرحومہ بینظیر کو جب پھر اقتدار کی ہوس ہوئی، تو وہ امریکہ کی اشیرباد حاصل کرتی ہوئی پاکستان آ گئی۔ اور پاکستانی عوام کی خدمت اور حبُِ الوطنی کا نعرہ بلند کیا۔ بینظیر کو دیکھتے ہوئے ایک دوسرے لٹیرے کو بھی عوام کا دکھ درد یادآیا اور وہ جدّہ سے جمہوریت کا نعرہ لگاتا ہوا پاکستان سدھارا۔ پاکستانی قوم جو ایک ڈکٹیٹر سے جان چھڑانے کے لیے شدید desperateتھی۔ انہیں جھوٹے اور فراڈ لیڈروں کو ایک بار پھر اپنے قیمتی ووٹوں سے نواز کر اپنے اوپر حکمران کھڑا کر لیا!

    (اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جیسی قوم ہو ہم اُسے لیڈر بھی ویسے ہی دیتے ہیں)۔

    حالاتِ حاضرہ:

    انتخابات ہو چکے۔ جنہیں اقتدار سنبھالنا تھا سنبھال چکے! مگر عوام وہی کی وہی ہے۔ اور رہے گی۔ کھوکھلے جمہوری تقاضے پورے کرنے کے لیے یوسف رضا گیلانی کو کٹ پتلی وزیرِ اعظم مقرر کر کے پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کا لیڈر (جو کل تک ایک پرلے درجے کا کرپٹ سرمایہ دار تھا) اپنے دبئی کے عالی شان محل میں جا بیٹھا ہے۔ اور پاکستانی عوام کے دکھ درد کی بات کر رہا ہے!

    سب سے پہلے تو یہ پوچھنا ہے کہ کیا آصف علی زرداری انتخابات میں کامیاب سیاستدان ہے؟ ہرگز نہیں! وہ تو انتخابات میں کھڑا ہی نہیں ہوا تھا۔! پھر اُسے پاکستان اور پاکستانی عوام کی تقدیروں کا فیصلہ کرنے کا کیا حق ہے؟

    کیا یہ جمہوری لبادہ اوڑھے ہوئے! ایک طرز کی ڈکٹیٹرشپ نہیں کہ جو سب سے بڑی پارٹی کا لیڈر ہو،! وہی سب سے بڑا فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے؟ چاہے وہ عوام کا چنیدہ لیڈر ہو یا نہ؟ پوچھنا یہ بھی ہے کہ کیا آصف علی زرداری کی نجی مصرفیات اتنی اہم ہیں! کہ پاکستان کی سیاسی تقدیر پر بات چیت کرنے لیے! اُس کے دربار پر حاضری دینے کے لیے! دبئی جانا پڑے یا لندن میں محفلیں منقعد ہوں؟

    پاکستانی عوام عقل کی وہ اندھی قوم ہے! کہ اپنے سامنے تباہی کو دیکھ کر بھی اُسے آزادی کی نیلم پری سمجھ بیٹھی ہے۔

    جس ملک کی تین میں سے دو بڑی سیاسی پارٹیوں کی قیادت ہی بیرونِ ملک ہو۔! وہاں پر عوام کے دکھ درد کی بات کیا ہوگی؟؟؟ دبئی اور لندن کے پرسکون زندگی میں رہ کر پاکستان جیسے ملک کی قیادت کرنا بہت آسان ہے۔! پاکستان میں کر عوام کے دکھ کو یاد کرنا آسان کام نہیں!

    مگر عوام نہیں سمجھے گی! 

    میٹھی میٹھی باتیں کرنا ہر سیاسی لیڈر کی خوبی ہے۔! یہ لوگ اپنے الفاظ میں عوامی دکھ درد کی وہ کہانی بیان کرتے ہیں کہ عوام پسیج جاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ پاکستانی عوام نے اپنے پاؤں پر ایک بار پھر کلھاڑی ماری ہے۔ مجھے اِس بات پر یقین ہوتا جارہا ہے کہ پاکستان کو کسی بھی سیاسی لیڈر نے نہیں لوٹا، بلکہ ہمیشہ عوام نے اپنے آپ کو خود کو نیلام کیا ہے!ہماری قوم میں قوتِ فیصلہ کی کمی ہے۔

    ہمیں یہ آس ہوتی ہے کہ کم سے کم محنت ہو اور زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو! یہی وجہ ہے کہ ہم اِن مکروں کردار سیاستدانوں کا تلوار سے صفایا کرنے کی بجائے بزدلی کے راگ پر جمہوری ناچ ناچنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے ضمیروں کو اطمینان میں لے آتے ہیں کہ ’ہم تو ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں‘!!!

    کیسی شرمناک بات ہے کہ پاکستانی سیاستدان ، پاکستانی عوام کے ووٹوں سے اقتدار تک پہنچے اور پھر بیرونِ ملک اپنے عالیشان محلوں میں بیٹھ کر ’جب ۔وقت۔ ملا۔کے۔تحت‘ پاکستان کی سیاسی تقدیر کاکھیل کھیلتے ہیں۔ ابھی تو اور کیا کچھ ہوتا ہے یہ وقت بتاتا ہے (مسکراتے ہوئے)۔

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]
    بقلم: مسعودؔ  –  کوپن ہیگن 9 مئی 2008
    [mks_separator style=”solid” height=”2″]
    Dar’alHakoomat: Duabi
    SC orders 500 Buildings in Karachi to raze
  • Meri Tehreer – Political: Jamhooriyat Zindahbaad!

    Meri Tehreer – Political: Jamhooriyat Zindahbaad!

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    جمہوریت زندہ باد!!

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    نعرہ بازیاں

    جمہوریت زندہ باد! عدلیہ کی بحالی زندہ باد!! سید یوسف رضا گیلانی زندہ باد! جسٹس افتخار محمدچوہدری زندہ باد! جنرل پرویز مشرف مُردہ باد! امریکہ دوست مردہ باد!

    جی صاحب ہمارے ملک میں نعرے لگانے والوں کی کمی نہیں۔چار پیسہ لگا کر ، کرائے کے نعرہ بازوں سے کسی کی بھی ذات کو مردہ باد کہلاوانا ہمارے ہاں قطعی ناممکن نہیں رہا۔ ہماری سیدھی سادھی معصوم قوم اپنے نعروں کے جوش میں یہ بھی بھول جاتی ہے کہ یہ نعرہ بازی کس کے لیے ہوتی ہے، یہ قوم سمجھتی ہے کہ ہمارے ملک میں اب جمہوریت کا راج ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جمہوریت راج نہیں کرتی۔ دوسری بات یہ کہ جمہوریت بذاتِ خود ایک ایسی طوائف ہے جو پیسے اور طاقت والے کے گرد ناچتی پھرتی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اُس ناچ کو بے نقاب کرتی ہوئی نظر آرہی ہے مگر دیکھنے والی آنکھ نہیں!

    رونادھونا

    ہمارے ہاں پچھلے ساٹھ سالوں سے یہ رونا رویا جا رہا ہے کہ انصاف نہیں ملتا! عدالتیں صرف اُن کو پناہ دیتی ہے جنکے پاس پیسے کی دھنک ابھرتی ہے۔ غریبوں کو تو ایف آئی آر تک کٹوانے کی اجازت نہیں تو وہ بیچارے عدالتوں تک کہاں پہنچے گے؟ اگر اِس بات میں ذرا بھی صداقت ہے کہ عدالتیں ساٹھ سالوں سے پیسے والوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں تو یہ کہنا قطعاً غلط نہیں ہو گا کہ پاکستانی عدلیہ بذاتِ خود ایک مافیا ہے جو اپنے پاؤں مضبوط رکھنے کے لیے پیسہ والوں کی سامنے بِکی ہوئی ہے۔ پچھلے ساٹھ سالوں سے کبھی کسی لیڈر کی اتنی جرأت نہیں ہوئی کہ اِس عدلیہ پر ہاتھ ڈال سکے کیونکہ اِسی عدلیہ کی بدولت لیڈرز ہیں اور لیڈروں کی وجہ سے عدالتیں چل رہی ہیں۔

    سید یوسف رضاگیلانی ججز کو بحال کرنے پر سخت مجبور ہے کیونکہ پاکستان جیسے ملک میں اپنی وزارت قائم رکھنے کے لیے اِس عدالتی مافیا کو پالنا اشد ضروری ہے۔گیلانی صاحب اسی معاشرے کا ایک اہم جُز ہیں جہاں انہیں عدالتوں سے قدم قدم پر کام ہے، چاہے وہ کام اِن کا ذاتی ہے یا کسی دوسرے کا!

    مشرف کے جرم

    اکبر علی بگتی کا قتل ہمارے کچھ حصوں میں ایک ظلم بن کر سامنے آیا ہے، حالانکہ حقیقت اِسکے بالکل برعکس ہے۔ اکبرعلی بگتی جو کبھی پاکستان کی کسی وزارت پر بھی فائز تھا،مگر اپنے علاقے میں وہ پاکستان کے قانون کو بھی ماننے سے انکار کرتا تھا اور اُس کی اپنی ایک الگ فوج تھی، اپنے ہتھیار، اپنے سپاہی ، اپنے قوانین! کیا کوئی انسان ایک ملک کے قانون سے بڑھ کر ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔
    میں ۱۹۹۹ میں اور پھر ۲۰۰۱ میں مشرف کی قائدانہ صلاحیتوں کا زبردست حامی تھا۔مگر میں کسی طور مشرف کا حمایتی نہیں ہوں۔ میں اُس جنرل کو سلیوٹ پیش کرتا ہوں جس نے کبھی کارگل کو فتح کیا اور کبھی پاکستان کو نواز شریف جیسے دوٹکے کے وزیر سے آزاد کروایا،کبھی واجپائی کو سیاست کے میدان میں شکستِ فاش دی، کبھی کرپٹ عدلیہ پر ہاتھ ڈالا اور کہیں اکبرعلی بگتی جیسے وطن دشمن کا صفایا کیا۔

    مشرف پر ہماری عوام کا یہ عتاب نازل ہوتا ہے کہ وہ امریکہ دوست ہے اور امریکہ کے ہاتھوں ملک کو بیچ دیا ہے۔امریکہ کے کہنے پر اور اسلام کے خلاف کام کررہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عوام پرویز مشرف کو گالیاں دیتی ہے۔

    سچائی

    سب سے پہلی بات تو کوئی مجھے یہ سمجھائے کہ کیا پاکستان میں ایسا کوئی لیڈر ہے جو وزرات کے عہدے پر ہو اور وہ نہ کرے جو اُسے امریکہ کہے؟ کیا سیدیوسف رضا گیلانی امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی ہمت رکھتا ہے؟ یہ بات کسی سی کیا ڈھکی ہوئی ہے کہ بے نظیر بھٹو کو الیکشن سے پہلے امریکہ سے اشیرباد حاصل تھی ۔

    دوسری بات یہ کہ اگر مشرف امریکہ کا اتنا ہے غلام ہے جتنا عوام سمجھتی ہے کہ وہ ہے تو امریکہ کیونکر چاہے گا کہ وہ اُس کے راستے سے ہٹ جائے؟ وہ بینظیر کواشیرباد کیوں دیتا؟ چلیں مان لیتے ہیں کہ مشرف غلام ہے، مگر وہ کم سے کم پاکستان کی ایٹمی طاقت کو امریکہ کے سامنے نہیں بیچتا۔ اور امریکہ کی نظر میں صرف ایک بات ہے، پاکستان کا ایٹمی پلانٹ! اِس پر مشرف کسی طور امریکہ کی نظر نہیں پڑنے دیتا۔

    اتحاد

    ہم لوگ اِس بات پر خوشیاں منا رہے ہیں کہ ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی میں ’اتحاد‘ ہوا ہے اور دونوں نے ملکر ایک ’مضبوط‘ جمہوریت کی بنیاد رکھی ہے۔کیا مضحکہ خیز بات ہے!

    دو پارٹیاں جن کا منشور، جن کی سیاسی سوچ، جن کی تاریخ ہی ایک دوسرے سے جدا ہو، وہ ایک مضبوط سیاسی نظام کا اجرا کیسے کر سکتی ہیں؟؟؟ کبھی کبار اپنا اپنا مفاد حاصل کرنے کے لیے دو دشمن ایک تیسرے دشمن کے خلاف متحد ہو جاتے ہیں۔پاکستان میں یہی کچھ ہواہے۔ اور جس ’اتحاد‘ کی بنیاد مفادپرستیوں پر ہو وہ کبھی پائیدار نہیں رہ سکتا!

    عدلیہ کی بحالی جمہوریت کی بنیاد نہیں، بلکہ یہ اُسی کرپٹ سیاسی نظام کو تقویت پہنچانے کی سعی ہے جو سالہاسال سے ہمارے ملک میں رائج ہے اورابھی رہے گا، کیونکہ یوسف رضا گیلانی ازخود کچھ نہیں کرسکتاکیونکہ اُس کی پارٹی کی لیڈرشپ ایک ایسے انسان کی ہاتھوں میں ہے جو ایک مدت سے کرپٹ سرمایہ دار مشہور ہے۔ ہماری عقل کیوں حقائق کو ماننے سے انکار کرتی ہے؟انسانی زندگی کی تاریخ اِس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ ہم کیسے پی پی پی اور نوازشریف لیگ کی باتوں کو عوام کے حق میں بہتر جانیں؟

    جمہوریت

    جمہوریت کی بحالی ایک چونچلا ہے کیونکہ اوّل تو جمہوریت کا کہیں وجود نہیں، دوسرا ہماری عوام پھل پھول دیکھنے کی عادی ہے انہیں اِس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اِن پھولوں کے حسن کے پسِ پردہ پاکستان کو اِن نام نہاد جمہوری لٹوؤں کے ہاتھوں کیا کیا نقصان اٹھانے کو مل رہا ہے۔میرا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کرپشن کی ماں ہے جہاں سربراہوں کو ایک دوسروں کو خوش رکھنے کے لیے جگہ جگہ “compromise”کرنا پڑتا ہے۔ہماری یہ انتہائی بدنصیبی ہے کہ ایک بار پھر ملک کو سرمایہ دار طبقے نے اپنے نرخے میں لے لیا ہے!

    حالات بدل نہیں سکتے! یہ الفاظ میں نے ایک ایسے ہی ایک مضمون میں کوئی تین چار سال پہلے لکھے تھے۔ ہماری کشتی آج بھی وہی کی وہی کھڑی ہے، خوشی ہے تو صرف اتنی کہ ابھی تک ڈوبی نہیں ورنہ ناخدا تو جب جب بدلا ہے کسی قذاق سے کم نہیں رہا!
    اپنی دعاؤں میں پاکستان کی سلامتی کو شامل رکھیں۔

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    مسعودؔ    –  ۱۷ اپریل ۲۰۰۸

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    Meri Tehreer – Political: Jamhooriyat Zindahbaad!

    Shab-o-roz

  • Talkhiy-e-Halaat

    Talkhiy-e-Halaat

     

    کبھی کبھی حالات کی تلخیاں اِس قدر بڑھ جاتی ہیں کہ انسان خود کو بہت تنہا محسوس کرتا ہے۔

    اُسے لگتا ہے کہ نہ کوئی اُس کو سمجھ سکتا ہے اور نہ اُس کے ساتھ چل سکتا ہے۔! وہ خود کو تنہا، اکیلا اور ٹوٹا پھوٹا محسوس کرنے لگتا ہے۔! وہ چاہتے ہوئے بھی کسی کو اپنے دل کا حال نہیں بتا سکتا، وہ تنہائی چاہتاہے ، مسئلوں میں ڈوبی ہوئی انسانی سوچ تنہائی میں مزید پراگندہ ہوجاتی ہے۔! اور اِسی پریشان فکری میں مشیتِ ایزدی سے بہت سے ایسے سوالات کر بیٹھتا ہے جو مایوسی کی حد میں گزرتے ہوئے نافرمانی کے اندھیروں میں داخل ہو جاتی ہے۔! بہت سی ایسی سوچیں ذہن میں جنم لیتی ہیں جو گمراہی اور بالآخر کفر کی جانب لے جا سکتی ہیں۔

    حالات کی تلخیاں بہت شدید ہوتی ہیں۔! سوچیں انہیں مزید تشنا کردیتی ہیں! اور پھر ایک ہی سوچ آتی ہے کہ حالات سے بغاوت کیسے کی جائے! مگر جب تک انسان کی دم میں دم ہے وہ حالات سے دور نہیں بھاگ سکتا۔! اُسے حالات کا سامنا کرنا ہو گا، اُسے یہ کڑوا گھونٹ پینا ہوگا اور اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔

    مسائل بعض اوقات انسان کا پیچھا کرتے ہیں۔! ایک بعد دوسرا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔! ایسے حالات میں ثابت قدمی بہت مشکل بات ہے۔! اپنے آپ کو حالات کے بہاؤ پر چھوڑ دینا بھی عقل مندی نہیں بلکہ ایسے حالات میں جرأت کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اِس کٹھن راہ سے گزرنا سیکھنا ہوگا۔! کہنا آسان کرنا مشکل؟ یہی سوچ رہے ہیں نا آپ؟! ہرگز ایسی بات نہیں بلکہ انسان کو اُس ہرنی سے سبق سیکھنا چاہی!ے جو اپنے غزال کو شیر کے جبڑوں میں چیرتا ہوا دیکھ کر کچھ دیر دیکھتی ہے! اور پھر اِسے مصلحتِ ایزدی سمجھ کر آگے بڑھ جاتی ہے کہ اُسکی زندگی میں ابھی ایسے بے شمارمقام آئیں گے۔

    اللہ تبارک تعالیٰ کبھی انسان پر اسکی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ ذرا سوچیے اس حاملہ کی نسبت جو ایک خالی کشتی میں تنِ تنہا دریا میں سفر کر رہی تھی اور اس دوران اس نے بچے کو جنم دیا ، عین اس وقت عزازیل کو حکم ہوا کہ اس ماں کی جان قبض کر لی جائے! اس بچے کا والی وارث کوئی اور نہیں تھا فقط اللہ تبارک تعالیٰ تھا!

    ہمیں بھی ایسے مسائل میں انہیں مصلحتِ ایزدی سمجھ کرقبول کرلینا چاہیے اور آگے بڑھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ تدبُّر کرنا چاہیے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے کوئی بھی اچھا فیصلہ کرنا فی الفور بہت مشکل ہوتا ہے۔ اکیلا انسان ایسے میں کوئی مثبت فیصلہ نہیں کر سکتا۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے انسان کے لیے انسان کو پیدا کیا ہے۔ ہم اکیلے کچھ نہیں۔ تنہائی وہ زہر ہے جو موت تو دیتا ہے مگر تڑپا تڑپا کر!

    جب حالات کی تلخیاں بڑھنا شروع کردیں اور آپ کے اختیار میں ہو تو کسی اچھے ماہرِ نفسیات سے رابطہ قائم کیجیے۔ اسے اپنے دل کا حال سنائیے ممکن ہے اسکے پاس آپ کی الجھنوں کا ہل ہو۔ اگر نہیں تو کسی ایسے  انسان سے رجوع کرنا چاہیے جو آپ کے لیے کوئی مقام رکھتا ہے، بات کرنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔ ایک سوچ جو سوچتی ہے اُسے دو سوچیں ملکر بہتر سوچ سکتی ہیں اور سوچ کو ایک نیا زاویہ ملتا ہے۔انسان ایک معاشرتی جانورہے اور معاشرے کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ تنہائی کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ یہ سوچوں کی خیالوں کی جذبات کی موت ہے!

    اور اگر آپ کو انسانوں سے بات کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہو تو ایسی صورت میں اللہ تبارک تعالیٰ سے رابطہ کیجیے۔ نماز کا سہارا لیجیے۔ نماز انسان کی اللہ تعالیٰ کیساتھ براہِ راست رابطے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کے دلوں میں چپھے ہوئے بھیدوں تک کو جانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو سجدوں میں پڑے انسان سے بیحد محبت ہے۔ اللہ سے اپنی الجھنوں کا حل مانگیے۔ اپنی آرزؤئیں اللہ کے حصور پیش کیجیے اور اکسے ذات پر بھروسہ رکھیے۔

    یہ جانتے ہوئے بھی حالات تلخ ہیں اپنے آپ کو مثبت رکھنے کی کوشش کریں۔ خود کو مصروف رکھنے کی کوشش کریں اور ایسے کاموں کی طرف توجہ دیجیے جو آپ کو غلط سوچوں سے دور رکھ سکیں۔ اس وقت سے سیکھئے، یہ آپ کے مستقبل کا اثاثہ ہے۔ کوشش کریں کہ اپنی روٹین میں تبدیلی لائیں۔ تبدیلی اچھی ہوتی ہے۔ اللہ کی نعمتوں کو یاد کریں اور جو مل گیا اس پر صابر اور شاکر رہنا سیکھئیے۔ یہ جانچئیے کہ آپ کیا کر سکتے ہیں یہ بھول جائین کیا نہین کر سکے۔ اور جیسا پہلے کہا کسی ایسے شخص سے رابطہ رکھیے جو آپ کے دکھ درد کو سسمجھ سکے۔


    تحریر: مسعود 


    Shab-o-roz

  • Betukiyaan

    Betukiyaan

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    بے تکیاںاردو ادب!

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    اُردو ادب کا نام سنتے ہی کچھ لوگوں کے پیٹ میں مڑوڑ اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ منہ پہ پڑنے والے نقشہ جات بتاتے ہیں کہ موصوف کسی سخت لقوے کی حالت میں ہیں۔ لیکن دراصل انہیں یہی ہوتاہے کہ اب بوریت سے بھرے اشعاروغزلیں سننے کو ملیں گی! اور موصوف شعرا کرام اپنی اپنی کہے بغیر نہیں رہیں گے!

    اورغضب خدا دا جن کے واقعی سروں کے اُوپر سے بات گزر جائے گی وہ لوگ واہ واہ کرتے رہیں گے۔

    لوگ خشک میوہ تو نگل جاتے ہیں! مگر اُردو ادب کا نام سنتے ہی کچیچیاں بھرنا شروع کردیتے ہیں۔مگراب صاحب ہمارا ادب ایسا بھی بور نہیں جیسا مِیرا کا رقص، وہ بھی پورے لباس میں!Betukiyaan

    خیر اُردو ادب کی دیگوں میں کیا پکتا ہے! اِس پر تو ہمیں بحث نہیں مگر اُن دیگوں کو پکانے والے کون ہیں؟ ہمیں آج صرف انہیں سے سروکار ہے۔ اور ان میں سے اکثر نائیوں ۔ میرا مطلب ہے شاعر حضرات ۔ کا نام سنتے ہی ہماری بے چین روح کو تسکین مل جاتی ہے۔ Betukiyaan

    ایک شاعر ہیں اصغرصاحب، جب انہیں شاعری کا شوق ہوا توانہوں نے اپنے پڑوسی کو اتنا کلام سنایا کہ ان کا پڑوسی ان سے بہت نالاں ہوا، اصغرؔ صاحب نے بھی انہیں خوب ستایا اور اپنا تخلص رکھا:! اصغر ؔ گونڈوی، ہم ایک مدت تک اِسے پنجابی والا گوانڈی سمجھتے رہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ ہماری املا غلت تھی۔

    اسی طرح ایک صاحب تھے جنہوں نے اپنا تخلص پنہاں ؔ رکھا تو ہم اکثر سوچ میں پڑ جاتے کہ اردو میں محاورہ کیوں بنا ہےکہ چھپ کر وار کرنا، پنہاںؔ صاحب چھپ کر شعر اِس لیے کہتے تھے کہ انکا حریف رازؔ ؔ مرادآبادی نہ دیکھ لے کہ پنہاں کس زمین ، بحر اور ردیف و قافیہ میں چھپ کروار او سوری شعرگوئی کر رہے ہیں، ویسے پنہاںؔ  کے اکثر اشعار ایسے ہیں  کہ انکی باتیں راز ہی سمجھیں،سانوں کی…. Betukiyaan

    سرحد پار ایک شاعر تھے کیفیؔ اعظمی۔ جب ہم نے ان کا نام پہلی بار سنا تو لگا کسی کیفے ٹیریا کی کوئی الہڑ سی مٹیار یعنی بارٹینڈر ہوگی مگر جب دیکھا تو کیفی صاحب کا اپناہی قافیہ بگڑاہوا تھا بلکہ اُس طرح جیسے ہمارے ایک قابل شاعر نے اپنا حلیہ بگاڑ لیا جب اپنا تخلص رکھا: خمارؔ ۔ خمار کا شاعرانہ خمار ایسا بڑھ گیا کہ انہیں  سکون دینے کے لیے سرُورؔ باربنکوی نے جنم لیا! Betukiyaan

    ہمارے ایک چچا کو بھی شاعری کا جنون ہوا اور کیا جنون تھا کہ ہر شے پر غالبؔ ! غالبؔ چچا نے اپنے تخلص کا بھی خوب (نا)جائز فائدہ اٹھایا ۔ یوں ایک دن غالب چچا رمضان کے دنوں میں آموں کے مزے اڑارہے تھے، کسی نے سرزنش کی تو بے دھڑک بول پڑے: کیا کروں یار شیطان غالبؔ ہے! Betukiyaan

    ایک اور انکل تھے، بے حد جرأت ؔ پسند! بے چارے نابینا تو تھے ہی مگر جرأت دیکھو تو شعر کیا کہتے ہیں:

    اُسکی زلف پہ پھبتی ہے شبِ دیجور کی

    اب وہ بیچارے دیکھ تو نہیں سکتے تھے کہ کون مسخرہ پاس بیٹھا ہوا ہے، کسی نے قریب سے قافیے سے کیا خوب قافیہ ملایا:

    اُسکی زلف پہ پھبتی ہے شبِ دیجور کی

     اندھے کو اندھیرے میں سوجی بڑے دور کی

    کچھ میرے جیسے لوگ زبردستی کے شاعر بن جاتے ہیں، اور جب کسی قابل فہم بندے کو اپنا کوئی شعر سنا ہی بیٹھیں تو آگے سے وہ قابلِ فہم بندہ داد دینے کے امتحان لینا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک انکل نے میرا امتحان لینا شروع کردیا کہ مسعود  میرےایک شعر کے  اِس مصرع کو آسان اُردو میں تشریح کرو، مصرع تھا: کُشتۂ شوخئ رندانہ نگاہ ہیں ہم بھی، اب مجھ جیساتین جماعتیں پاس کو اتنی گھمبیر اُردو کی سمجھ کہاں؟ بہت دماغ ماری کی مگر کچھ پلے نہ پڑا، پھر تھک ہار کے انکل کو کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو آپ کا شعر مکمل کر دوں توشعر کو مکمل یوں کیا:

    کُشتۂ شوخئ رِندانہ نگاہ ہیں ہم بھی

     کسی اُلو کی پٹھی کے غم میں تباہ ہیں ہم بھی

    (اِس کے بعد اُن انکل نے میرا امتحان نہیں لیا)

    شعرأ کرام کی ایک بات بہت قابلِ ستائش ہے! یہ لوگ اپنے علاقے کا خوب پرچار کرتے ہیں، جیسے دہلی کو ایک داغ ؔ لگا، مرادآباد کا جگرؔ تڑپا، سلطان پور کو کسی نے مجروحؔ کیا، اکبرآباد میں ایک شمیم ؔ تھا یا تھی۔

    اِسی طرح کھاریاں کے قریب ایک گاؤں ہے دُھنی کے نام کا،وہاں پر ہمارے ایک عزیز کو شاعری کا چسکا ہوا تو انہوں نے اپنا تخلص رکھا، اکبر دُھنی والا، اب ہم سوچ میں پڑ گئے کہ کیا صرف اکبر ہی دُھنی والا ہو سکتا ہے؟ باقی لوگ دُھنی کے بغیر ہیں(سوچیں)۔

    مرد شعرأ کی طرح خواتین شعرأ نے بھی شعرگوئی سے منہ ماری کی ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ بھوپال کی ایک ثریا تھیں جنہوں نے گانے بجانے کے ساتھ ساتھ شاعری کو بھی کچھ ٹھمکے لگائے ہیں۔ اُن کی شہرت کو دیکھ کر کالی کٹ (جنوبی ہندوستان) میں ایک شیداں پیدا ہوئیں جنہوں نے اپنا تخلص رکھا: شیداں کالی کٹی! (ہم ٹھہرے کٹر پنجابی، ہمیں کالی کٹی سے جگالی کرنے والی  چار پاؤں پر کھڑی ایک ہی مخلوق  یاد آتی ہیں)۔

    اب اِن باتوں پر غور کریں تو کون کہتاہے کہ ہمارا ادب مزاح سے خالی ہے۔ شعرأ کا نام ہی سُن کر ہماری بخیہ گریاں شروع ہو جاتی ہیں اور جب اِس سمندر میں غوطے لگائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارا ادب کتناخودکفیل ہے۔ دراصل شاعری دل ودماغ کی چند سوچوں کو مترنم طریقے سے پیش کرنے کا فن ہے جو بلاشبہ ایک عطیہ ہے، ایک سرود ہے ایک نغمہ ہے۔
    خوش رہیے۔

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    بقلم: مسعود،۱۹ نومبر۲۰۰۶

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

  • Waqt Ki Zaroorat Kya Hai?

    Waqt Ki Zaroorat Kya Hai?

    آج اہلِ اسلام جن حالات سے گزر رہے ہیں! وہ اس قدر سنگین ہیں کہ ایک لغزش ہماری تباہی کا سبب بن سکتی ہے اور ایک سوچا سمجھا لائحہ عمل ہماری نجات ۔نہ صرف دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی۔ یہ وہ وقت ہے کہ جہاں جہاد کی بہت سخت ضروت ہے۔

    اہلِ اسلام کی بیداری کا وقت آن پہنچا ہے۔! اور یہ مغرب کی بھول ہے کہ وہ ہماری بقا کو ختم کرسکتا ہے۔ بلکہ سچ تو ہے کہ اہلِ مغرب نے ایک بہت بھیانک غلطی کردی ہے۔! ایسی غلطی جس نے ایک سوئے ہوئے شیر کو بیدار کردیا ہے۔!

    پچھلی چند صدیوں کے واقعات کو دیکھیں تو مسلمان کبھی اِس طرح یک جان نہیں ہوئے جیسے اب توہینِ رسالت پرہوئے ہیں۔! لیکن ایک غلطی جو ہم سے ہو رہی ہے وہ ، وہ ری ایکشن ہے جو لیا جا رہا ہے۔! توڑ پھوڑ،ملکی امارات کو نقصان پہنچا کر انسانوں کے لیے مشکلات کھڑی کرنا،  سفارتخانوں کوآگ لگانا یہ ہماری شدید ترین کوتاہی ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہمیں ایک ایسا لائحہ عمل بنانا ہے جس کی بنیاد یہ ہے کہ ہمیں اللہ کا مددگار بننا ہوگا اِس مشن میں کہ دینِ حق کو دنیا کے تمام ادیان پر غلبہ دلانا ہے۔

    اب دینِ حق کو غلبہ دلانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم نبی کریمﷺ کا دیا ہوا سبق سب سے پہلے اپنے اوپر اوڑھ لیں،اپنے ایمان کو اس قدر مضبوط بنا لیں اور ہمارے اعمال اس بات کا ثبوت دیں کہ ہم اللہ اور نبی کریمﷺ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔محض زبان سے اقرار کافی نہیں بلکہ اب عمل کرنے کی ضرورت ہے اورجب ہم اِس پر کامیاب ہوجائیں تو پھر جہادِ فی سبیل اللہ کی ضرورت ہے۔ اب جہاد کی سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ اپنی جانب سے قربانیاں دی جائیں۔ قربانیوں سے مراد اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنی جانب سے مشنِ رسول اللہﷺ کو آگے لے کر جایا جائےکہ ہمیں اسلام کو غلبہ دلانا ہے،اِس کے لیے جان کی سٹرگل، مال کی سٹرگل کرنی ہوگی۔

    جہاد سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ سروں پر کفن باندھ کر دیوانہ وار یورپ پرچڑھائی کردو! ہر گز نہیں کیونکہ ہمارا ایمان اُس درجے پر نہیں پہنچاہوا کہ ہم بغیر سازوسامان کی صرف اللہ کے توکل پر یورپ پر چڑھائی کردیں۔ نہیں بلکہ جہاد کی سب سے پہلی منزل اپنے ایمان کو اللہ اور نبی کریمﷺ پر پختہ کرنا ہے۔کہ ہماری نصرت ہوگی تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوگی ، قرآن کے سبق کو سیکھنا اور اِس پر عمل کرنا پہلی منزلوں میں شامل ہے۔! پھر اِس سبق کو پھیلانا ہے۔یہ جہادکی اصل صورتیں ہیں۔

    جب ہم اپنے اعمالوں سے یہ ثابت کردیں تو پھر جاکر قتال کا مرحلہ ہے۔ قتال سے مراد پھر جنگ و جدل ہے۔ ایک بات تو پکی ہے کہ ایک دن اللہ کا دین تمام اقوام پر ضرور غالب ہوگا! لیکن یہ long term  strategies ہیں جو اہلِ اسلام کو اب اپنانا ہوں گی، فی الفور جو کام کرنے کا ہے وہ وہی ہے جو میں نے بھی ایک پہلے مضمون میں لکھا تھا احتجاج کیا جائے اِس معنی میں کہ احتجاج کا حق ادا ہو۔ افسوس صرف یہ ہے کہ وہ حق ادا نہیں ہوا بلکہ طیش اور جوش میں آکر ہم نے بہت نقصان کرلیاہے۔ جوش سے زیادہ ہوش کی ضروت ہے!

    تمام اہلِ اسلام کو یک زبان ہو کر ڈنمارک سے ہر طرز کا رابطہ توڑنا ہوگا۔! اور اسی طرح دوسرے ممالک سے۔تمامتر مسلم ممالک یک زبان ہو کر اپنے ملک سے ڈنمارک کی ایک ایک مصنوعات کو ختم کر دیں، ان سے تجارت کے تمام تر رابطے منقطع کر دیں، ان سے تمامتر سفارتی تعلقات بند کر دیں جب تک ان کی جانب سے سرکاری سطح پر معذرت نامہ اور اس بات کا عہد نامہ نہیں آتا کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔

    ہماری کامیابی صرف اور صرف اس میں ہے! کہ ہم اللہ کے مدد گار بن جائے اور اپنے آپ پر اللہ کے دین کواوڑھ لیں! اور پھر اللہ کے توکل سے جہاد پر نکلے، مگر ہمیں اپنی اصلاح کرنا ہوگی! یہی وقت کی ضرورت ہے ! یہی ہماری نجات ہے!!!


    تحریر: مسعود

    SC orders 500 Buildings in Karachi to raze

  • Meri Tehreer: Raddi Ki Tokri

    Meri Tehreer: Raddi Ki Tokri

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    ردی کی ٹوکری

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    Meri Tehreer: Raddi Ki Tokri

    چند روز پہلے میری ملاقات سرمد سے ہوئی! سرمد کو بھولے تو نہیں ہیں نا؟ وہی سرمد جو فقط ایک شاعر ہے!

    میں نے پوچھا: ’’میاں کہاں ہوتے ہو؟ بہت دنوں سے تم نے کچھ نہیں لکھا‘‘ تو کہنے لگا کہ

    ’’مسعود آج کل حالات سازگارنہیں! کئی کئی ماہ کا بانجھ پن ہے، نہ کچھ نازل ہو رہا ہے اور نہ ہی کچھ لکھا جارہا ہے‘‘!

    میری اور سرمد کی بہت گہری دوستی ہے! میں اُس سے ہمیشہ کچھ نہ کچھ لکھوا لیتا ہوں۔!

    اب کی بار کوئی نظم تو نہیں دی ایک تحریردی ہے جوبقول اُسکے اُس کی کچھ بکھری بکھری سوچیں ضرور ہیں، آپ بھی پڑھیے:

    ’’بہت دنوں سے میں نے کچھ نہیں لکھا! بہت کچھ لکھنے کو دل کرتا ہے مگر سوچتا ہوں کہ کیا لکھوں؟! ایسا کچھ لکھوں کہ جس میں درد نہ ہو، قرب نہ ہو، مایوسی نہ ہو،تلخی نہ ہو یا دوسرے الفاظ میں سچ نہ لکھوں۔! بلکہ ایک ایسا خاکہ کھینچوں جو سہانا لگے ، متوالا لگے ،دلپذیر لگے ،مرہم لگے پرتیر نہ لگے۔!

    اِسی سوچ میں قلم اٹھاتا ہوں اور کاغذ کو داغدار کرنا شروع کردیتا ہوں! لکھتا جاتا ہوں لکھتا جاتا ہوں! مگر دل کو معلوم نہیں کیا لکھ رہا ہوں، دل اپنی جگہ پر ہو تو دل کو بتاؤں نا! یہ نادان تو معلوم نہیں کہاں بھٹک رہا ہے۔! بہت بار اِسے ایک پنجرے میں بند کیا ہے مگر یہ وحشی ہر بار سنگل تڑوا کردرِحفصہ پہ جا پہنچتا ہے،! جہاں سے اِسے بار بار ٹھکرادیا جاتا ہے!

    اپنے بکھرے پن کو لے کر ہر بار ایک سنگلاخ سے گزرتا ہوا کسی انجان راستے پر چل پڑتا ہے! منزل کی جانب جانے والے ہمراہیوں کے ساتھ نکل پڑتا ہے اورپھرجب سب کی منزل آجاتی ہے تو یہ پریشان کھڑا سوچنے لگتا ہے کہ میری منزل کب آئے گی؟! جب کچھ نہیں سوجھتا تو کرچیوں کو سمیٹتا ہوا واپس آنے کی کوشش کرتا ہے مگر واپسی راستے بھی بہت بدل چکے ہوتے ہیں۔!

    دل و دماغ وا نہیں! میری پریشان سوچیں میرا ساتھ نہیں دے رہیں۔! ایک کے بعد دوسرے کاغذ پر بے شمار سطور لکھ دیتا ہوں! اور پھر ایک لمحہ ٹھہر کر جب اپنے لکھے کو پڑھتا ہوں! تو قہقہے لگا کر ہنس دیتا ہوں کہ یہ کیا پاگل پن ہے! ایک ٹوٹی پھوٹی تحریر جو بے سڈول ہو بے مقصد ہو، جو کتاب میں فقط صفحات کی مقدار پوری کرنے کے لیے لکھی جائے اُس پر تو ہنسی ہی آتی ہے نا!

    لوگ بھی ہنستے ہیں میں بھی ہنستا ہوں، آپ بھی ہنسا کریں!

    کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ ڈرامہ لکھتے وقت کچھ کردار لکھے جاتے ہیں۔! ایک ہیرو، ایک ہیروئن ، کچھ سائد کردار اور پھر کچھ فالتو کردار جو ڈرامے میں ضروری تو ہوتے ہیں مگرایک مقصد تک!

    جب اِنکی ضرورت ختم ہوجاتی ہے انہیں کہانی سے نکال دیا جاتا ہے۔! بلکہ اُسی طرح میری یہ تحریربھی ہے کہ جو لکھنی ضروری ہے! اور اِس لیے ضروری ہے کہ میں نے اِس تحریرکو لکھنے میں جتنے کاغذ استعمال کیے ہیں سب سے سب ردّی کی ٹوکری میں گریں گے! اور اگر ایسا نہیں کروں گا تو ردّی لینے آنے والا چاچا بھولا خالی ہاتھ چلا جائے گا!

    اگر چاچا بھولا خالی ہاتھ چلا گیا توممکن ہے! وہ کل نہ آئے اوراگر وہ کل کو نہ آیا تو میری بیاضوں، میری تحریروں، میری تقدیروں،میری تدبیروں کی ردّی کون اٹھائے گا؟؟! ‘‘

    سرمد کی وفائیں بے کفن لاش کی طرح بے سروساماں پڑی ہیں، حفصہ اپنے مستقبل کی منتظر ہے!

    Meri Tehreer: Raddi Ki Tokri

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    مسعود

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    Shab-o-roz