Blog

  • Hello world!

    Welcome to WordPress. This is your first post. Edit or delete it, then start writing!

  • Pakistan Youm-e-Takbeer

    Pakistan Youm-e-Takbeer

    28 مئی کو پاکستان میں یومِ تکبیر منایا گیا اور حسبِ معمول مسلم لیگ ن نے الف سے لیکر ی تک اسکا کریڈٹ لینے کی بھرپور کوشش کی!

    مریم صفدر کے سوشل میڈیا نے بھی اپنی حتمی الامکان کوشش کی کہ نوازشریف کو ہیرو بنا کر پیش کیا جائے کہ ساری دنیا کی مخالفت کے باوجود میاں صاحب نے بڑی بڑی پیسے کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے ایٹمی تجربہ کیا! اور یہ کہ میاں صاحب نے تنِ تنہا پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا!

    پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ایک تاریخی نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس میں میاں صاحب کا کیا کردار ہے!  Pakistan Youm-e-Takbeer

    تاریخی پس منظر

    تقسیمِ ہند کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان کی درخواست پر بہت سارے سائنسدان، ماہرِ ریاضی، ماہرِ کیمیا اور سائنس ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان منتقل ہوئے۔

    1948 میں آسٹریلیا کے بہت بڑے سائنسدان سر مارک اولیفینٹ نے بابائے قوم حضرت قائد اعظم کو ایک خط لکھا جس میں اس نے لکھا کہ پاکستان کو ایٹمی پروگرام میں متحرک ہونا چاہیے۔ اس کے لیے اس وقت پورسے ہندوستان میں ایک مسلم سائنسدان ایسا ہے جو اس میں کافی کام کر سکتا ہے: رفیع محمد چوھدری۔

    اس خط کے بعد رفیع محمد چوھدری بھی پاکستان منتقل ہوئے اور انہیں ایک ہائی ٹینشن لائبرٹی کے قیام اور اسکے صدر پر منتخب کیا گیا۔ Pakistan Youm-e-Takbeer

    1956 میں پاکستان اٹومک انرجی کمیشن کا اجرا ہوا۔ جس کا چیئرمین نذیر احمد کو بنایا گیا۔

    نذیر احمد نے جنرل ایوب خان کو دومختلف میں سے ایک ایٹمی ری ایکٹر خریدنے کا مشورہ دیا، مگر ایوب خان کی حکومت نے دونوں مسترد کر دئیے۔

    1958 میں نذیر احمد نے پاکستان انڈسٹرل ڈیلوپمنٹ کارپوریشن (پی آئی ڈی سی) کو پھر مشورہ دیا کہ ملتان کے قریب روزانہ 50 کلوگرام وزنی پانی پلانٹ لگایا جائے جس میں فرٹالئز فیکٹری ہو، مگر یہ مشورہ بھی مسترد کر دیا گیا اور اسکی پاداش میں نذیر احمد کو جنرل ایوب نے عہدے سے ہٹا کر شماریات کے ادارے میں لگا دیا۔ Pakistan Youm-e-Takbeer

    1959 میں امریکہ نے 5 میگاواٹ کا پول کی طرح کا ری ایکٹر مہیا کیا۔

    1960 میں عشرت حسین عثمانی کو نذیر احمد کی جگہ پی اے ای سی کا چئیرمین لگایا گیا جس نے کراچی نیوکلیر پاوور پلانٹ بنانے میں اور ملک بھر میں یورینیم اور پلوٹینیم کی تلاش کے ادارے قائم کیے۔

    1965 میں ایوب خان حکومت کے سائنس کے مشیر ڈاکٹر عبدالسلام امریکہ گئے اور راولپنڈی میں ایک ریسرچ ری ایکٹر لگانے کا معاہدہ کیا۔ عبدالسلام نے ایڈورڈ ڈیورل اسٹون سے بھی نیوکلئیر ریسرچ کے قیام کا معاہدہ کیا۔

    اسی سال پی اے ای سی نے کینیڈا کی جنرل الیکٹرک کیساتھ معاہدہ کیا جس کے تحت کراچی میں 137 میکا واٹ  نیو کلئیر پاوور پلانٹ کا معاہدہ کیا۔ عبدالسلام نے ایوب خان کو مشورہ دیا کہ امریکہ سے نیوکلئیر فیول ری پروسیسنگ کی قابلیت خریدی جائے مگر ایوب خان اور اسکے وزیرخزانہ محمد شعیب نے اسے بھی مسترد کر دیا۔ Pakistan Youm-e-Takbeer

    1965 کے پاک بھارت کی جنگ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اس خطرے کو بھانپ لیا جو ہندوستان کی جانب سے دن بدن بڑھ رہا تھا۔

    بھٹو نے ویانا میں انٹرنیشنل اٹومک انرجی ایجنسی کی عالمی میٹنگ میں حصہ لیا۔ جہاں پر بھٹو کی ملاقات منیر احمد خان اور دوسرے پاکستان نژاد سائنسدان جو اس کمیٹی کے لیے کام کررہے تھے ان سے تفصیلاً ملاقات ہوئی۔

    ان ملاقاتوں میں بھٹو کا ہندوستانی ایٹمی مومنٹ کا شک یقین میں بدل گیا کہ وہ کس قدر آگے بڑھ چکے ہیں۔ وطن واپسی پر بھٹو نے ایوب خان کو اس پر باوور کروایا اور ہندوستان کی جانب سے بڑھتے ہوئے خطرے سے مطلع کیا، مگر ایوب خان ٹس سے مس نہ ہوا اور اسکو بھی مسترد کر دیا۔

    اسپر بھٹو کا ایک مشہور جملے سامنے آیا کہ “پریشان نہ ہوں ہمارا وقت بھی آئے گا”۔

    1967 میں رفیح محمد چوھدری کی قیادت میں پاکستانی سائنسدانوں نے radioisotopes کا پہلا بیچ تیار کیا، نیوکلئیر کی ریسرچ کی ٹیکنولوجی اب تیزی کے مراحل سے آگے بڑھ رہی تھی جسکو سپروائز عبدالسلام کر رہے تھے۔

    1968 میں قائد اعظم یونیورسٹی میں تھیوریٹیکل فزیکس پر ریسرچ کا اضافہ ہوا جس میں فہیم حسین، پیٹر روٹوئیلی، جان ممتاز، فیاض الدین، اشفاق احمد اور مسعود احمد نے کام کیا۔

    سقوطِ ڈھاکہ کے تباہ کاریوں کے باعث پاکستان کو بہت شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ اس نقصان سے بہت سخت معاشی دھچکہ لگا اور ملک تقریباً دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا۔  اس نے سائنس کے شعبے میں بھی بہت نقصان اٹھایا۔

    ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں سیاسی قیادت آئی۔ 1972 میں ائی ایس آئی کو اطلاع ملی کہ ہندوستان اپنا پہلا ایٹمی تجربہ اسمائیلنگ بدھا کرنے والا ہے، جہاں ابھی پاکستان میں زیادہ تر وقت ریسریچ پر دیا گیا تھا۔

    بھٹو نے منیر احمد خان کو ویانا سے بلایا اور عشرت حسین عباسی کو برخواست کر دیا۔ عبدالسلام نے پی اے ای سی کے سینئر سائنسدانوں سے ایمرجنسی میٹنگز کیں۔

    1972 میں عبدالسلام نے نیوکلئیر ویپن پر کام شروع کیا اور اپنے دو شاگرد ریاض الدین اور مسعود احمد کو بلایا اور منیر احمد خان کے ماتحت لگایا۔ Pakistan Youm-e-Takbeer

      قائد اعظم یونیورسٹی کے تھیوریٹیکل گروپ نے ؔتھیوریٹٰکل فزیکس گروپؔ (ٹی پی جی) کا انعقاد کیا جسے سر پاکستان کی ایٹمی قابلیت کا سہرہ ہے۔ عبدالسلام نے ٹی پی جی میں مرکزی کردار ادا کیا۔

    اسی ادارے نے Fast neutron calculations پر ریسرچ کی جو جوہری دھماکے کی اہلیت میں خاص ہوتی ہے۔ اس ادارے کا کلیدی رول تھا جس کا سپروائزر خود عبدالسلام تھا۔

    1973 میں بھٹو نے ریاض الدین صدیقی کو پاکستان اٹومک انرجی کمیشن کا ممبر نامزد کیا، جس نے پھر Mathemetical Physics Group (MPG قائم کیا، اسکے بعد مزید کچھ سال کام ہوتا رہا۔

    22 مئی 1974 مین ہندوستان نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ کیا۔ بھٹو نے اس کو خطے میں ایک بہت بڑا خطرہ قرار دیا اور کہا کہ اس سے خطے میں ہندوستان کی اجارہ داری قائم ہو جائے گی اور مزید ایک مشہور جملہ کہا کہ پاکستن عوام اگرہزار سال تک ہوا تو گھاس پھوس کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ Pakistan Youm-e-Takbeer

    عبدالقدیرخان

    ڈاکٹر عبدالقدیر خان جنکی تعلیمی تربیت جرمنی سے ہوئی تھی اور جو metallurgical engineer and nuclear weapon technologis  تھے انہوں نے کئی سال بیلجیم اور ہالینڈ کے URENCO میں ملازمت کی تھی۔ اس ادارے میں وہ بہت سینئیر ٹرانسلیٹر تھے اور اسکی وجہ سے انکی رسائی اس ادارے کی حساس ترین معلومات تک تھی۔ Pakistan Youm-e-Takbeer

    عبدالقدیر خان نے 1974 بھٹو کو خط لکھا اپنی خدمات پیش کیں۔ بھٹو نے وہ خظ منیر احمد خان دیا جس نے سلطان بشیرالدین محمود کو ہالینڈ بھیجا جہاں پر عبدالقدیرخان سے انکی ملاقات ہوئی۔

    خان صاحب اسکے بعد پاکستان واپس آ گئے اور بھٹو سے ملاقات کی، جس میں خان صاحب نے مشورہ دیا کہ پلاٹینیم کی بجائے یورینیم کے پروجیکٹ غور کیا جائے۔ بھٹو نے اتنے سال کہ پلاٹینیم کی محنت کو ختم کرنا ناقابلِ قبول سمجھا مگر فوری طور پر حکم دیا کہ ایک الگ پروجیکٹ شروع کیا جائے جس میں یورینیم کے پلاٹ پر کام کیا جائے جس میں خان صاحب کام کریں گے انکے سپروائزر بشیرالدین محمود ہونگے۔

    19 اپریل 1976 کو عبدالقدیر خان صاحب نے منیر احمد خان کو خط لکھا کہ وہ اس سیٹ اپ سے خوش نہیں اور وہ آزادانہ کام کرنا چاھتے ہیں۔        Pakistan Youm-e-Takbeer

    وہ خظ بھٹو صاحب تک پہنچا جس پر بھٹو نے ایک الگ ادارہ قائم کیا جس کا نام انجئرنگ ریسرچ لابرٹریز(ای آر ایل) رکھا جو بعد میں کہوٹہ ریسرچ لابرٹریریز (کے آر ایل) بنا۔ پی اے ای سی کی طرح کے آر ایل بھی براہِ راست بھٹو صاحب کو رپورٹ کرتا تھا۔

    عبدالقدیر خان صاحب کو پی اے ای سی کی جانب سے ای آر ایل کے کاموں میں مداخلت نا پسند تھی، وہ چاہتے تھے کہ اس کی سربراھی پاکستان آرمی کے انجینرئنگ ڈیپارٹمنٹ کرے۔ ای آر ایل کا قیام بھٹو کی جانب سے تھا اور اسکا ٹاسک پاکستان آرمی کے انجینریرز کو دیا گیا تھا۔ الغرض برگیڈئیر زاھد اکبر خان، جو اس سے پہلے جی ایچ کیو کی کنسٹرکشن سے مشہور ہو چکے تھے، کی قیادت میں کام میں تیزی آئی۔

    بھٹو نے برگیڈئیر کو کچھ خفیہ ٹاسک بھی دئیے اور کہوتہ اور پی اے ای سی دونوں کے کاموں میں تیزی آنا شروع ہو گئی۔

    اس دوران ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی بیلجیم اور ہالینڈ میں جو تجربات تھے انکے مسودے اور اہم معلومات پاکستان اسمگل کرنا شروع کر دیں۔

    برگیڈئیرزاھد احمد خان

    بھٹو نے جنرل ٹکا خان سے ریکوسٹ کی کہ برگیڈئیر زاھد کو 2 اسٹار والے جنرل تک کے عہدے کی ترقی دی جائے کیونکہ اس رینک کا جنرل اس عہدے کے لیے زیادہ مناسب تھا۔

    ایڈمنسٹریٹیو کمیٹی

    اس پروجیکٹ کو خاص کر خفیہ رکھنے کے لیے ایک کمیٹٰ تشکیل دی گئی جس کا سربراہ مبشرحسن کو بنایا گیا۔ کچھ سال بعد – جیسا کہ اوپر تحریر کیا گیا ہے –

    ڈاکٹر قدیر اس سے خوش نہیں تھے اور چاہتے تھے کہ اس پروجیکٹ کو ملٹری کنٹرول کرے۔ جبکہ 1977 تک اس پروجیکٹ میں ملٹری کا کسی بھی قسم کا کوئی بھی خاص کردار نہیں تھا۔ انکا کردار خاص کر حفاظتی اقدام کا تھا۔

    بھٹو کا انجام

    یہاں پر یہ بات بہت ہی اہمیت کی حامل ہے کہ بھٹو کے وژن میں صرف ایٹم بم ہی نہیں تھا بلکہ وہ امتِ مسلمہ کے مابین ایک ایسا ملٹری ادارہ قائم کرنا چاھتا جو نیٹو کی طرز پر ہو اور جو امت کی حفاظت کرے۔ اس کے حق میں سعودی شاہ فیصل، لیبیا کے معمرقذافی، فلسطین کے یاسرعرافات خاص کر آگے آگے تھے۔ 

    یہاں پر یہ بات بھی سب سے اہم اہمیت کی حامل ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ساری دنیا میں جس نے مالی طور پر سپورٹ کیا وہ صرف اور صرف لیبیا تھا۔ لیبیا نے اس شرط پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی مالی اعیانت کی کہ لیبیا پھر اپنے سائنسدان پاکستان بھیجے گا جہاں پر انکی تربیت کی جائے گی اور لیبیا میں بھی ایٹمی پروگرام شروع کیا جائے گا۔

    یہ دو بہت اہم معاملات تھے جو امریکہ کو سخت ناپسند تھے اور امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے پاکستان آکر اوپن ٹی وی پر بھٹو کر وارننگ دی اور کہا:

    Mr. Bhutto, we’ll make a horrible example of you!

    ضیاالحق جو ایک تیسرے درجے کا جنرل تھا اس کو بھٹو ہی نے چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیا۔ ضیاالحق نے بدترین غداری کی اور بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ ایک ایسا کیس جس میں بھٹو کا ہزارسال تک کا کوئی واسطہ نہیں تھا اس میں ملوث کر کے قانون کا بدترین قتل کیا اور بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا۔

    1977 میں پھر ایٹمی پروگرام پہلی بار مکمل طور پر آرمی کے ماتحت آ گیا۔ برگیڈئیر زاھد کو ترقی دی گئی اور ایٹمی پروگرام میں مزید تیزی آئی۔ سی آئی اے، کے جی بی اور اسرائیلی خفیہ تنظیموں سے بچنے کے لیے پاکستانی ایٹمی پروجیکٹ کو ہمیشہ انتہائی خفیہ رکھا گیا اور اسکی شدید ترین حفاظت کی جاتی رہی۔

    پاکستانی ایٹمی پروگرام دو روٹ سے چلا: ایک یورینیم روٹ اور ایک پلاٹینیم روٹ۔

    لیبیا

    جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ لیبیا نے پاکستان کے ایٹمی پروجیکٹ جس کا نام پروجیکٹ 706 تھا، سب سے اہم مالی سپورٹ کیا۔ لیبیا کے معمرقذافی یہ پروجیکٹ لیبیا میں بھی شروع کرنا چاہتے تھے۔ اسکے لیے انہوں نے اپنے سائنسدان پاکستان بھیجیے جس ان لبرٹیوں میں علم سیکھا کرتے تھے۔ جنرل ضیاالحق کو معمر قذافی سے ذاتی عداوت تھی اور وہ قذافی کو پسند نہیں کرتا تھا۔ لہٰذا جیسے ہی ضیاالحق نے حکومت سنبھالی اس نے تمام لیبیا کے سائنسدانوں کو نکال دیا اور لیبیا نے مالی مدد بند کر دی۔

    ضیاالحق کے بعد

    پروجیکٹ 706 جب ملٹری کے نگین آیا اس کے بعد یہ کبھی کسی سوئیلین رہنما کے زیراثر نہیں رھا۔ اسکی مکمل ترتیب، تکمیل اور تشکیل اور حفاظت پاکستان ملٹری کے ہاتھ رہی ہے۔ اور یوں کہا جائے کہ سول حکومتوں کو ایک رتی برابر مداخلت کی اجازت نہیں تھی۔

    ایٹمی تجربہ

    پروجیکٹ 706 کا تجربہ بہت پہلے ہو جاتا مگر کئی ایک وجوھات کی بنا پر ملتوی ہوتا رھا۔ جس کی ایک بہت اہم وجہ سیاسی صورتحال تھی جو انتہائی متزلزل رہی اور نون لیگ اور پی پی پی کی ایک دوسرے کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی مہیم نے ملکی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا۔

    یہ کہنا کہ ملٹری اور سول حکومتوں کے درمیان ایک شدید کشمکش رہی، اور سول حکومتوں کی آپس میں بدترین دشمنی رہی لہٰذا اس ملک میں کبھی ملٹری اور سول حکومتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہو سکٰیں۔ اسکا عروج اسوقت ہوا جب مشرف کی قیادت میں پاکستان آرمی نے کشمیر نے ہندوستان کو ناکوں چنے چبو دئیے اور کارگل کی اہم ترین چوٹی فتح کر لی۔

    یہ عمل ہندوستان میں تباھی ثابت ہوا اور ہندوستان نے امریکہ سے مدد مانگ لی۔ امریکہ نے نوازشریف جو اسک وقت وزیراعظم بنا بیٹھا تھا اسکو امریکہ بلایا اور حکم دیا کہ کارگل سے پاکستانی فوج واپس بلاؤ۔

    نوازشریف کے حکم پر برطانیوی اخباروں میں پاکستانی فوج کو بدنام کرنے کے لیے روگ آرمی کے نام اشتہارات چھپے! نوازشریف ہی کے حکم پر پاکستانی فوج کو کارگل خالی کرنا پڑا۔ جو کہ فوج اور نوازشریف میں خفگی کو عروج پر لے گیا۔ اس سے کچھ ہی دن پہلے ہندوستان نے اپنے دوسرے ایٹمی پروگرام شکتی کا تجربہ کیا۔

    اب پاکستان کے پاس کسی قسم کا کوئی چارا نہ رھا کہ پروجیکٹ 706 کا تجربہ کیا جائے اور ہندوستان کو باوور کرایا جائے کہ ہمارے پاس بھی ایٹم ہے۔ اس میں کسی قسم کا کوئی گمان نہیں کہ یہ سارے کا سارا فیصلہ آرمی کا تھا اور خاص کر جب پاکستان کو کشمیر میں ایک اہم کامیابی کے بعد سیاسی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔  ایٹمی تجربہ ناگزیر تھا!

    مگر اس مقام پر بھی نوازشریف اس حق میں نہیں تھا کہ تجربہ کیا جائے۔ کیونکہ نوازشریف کو امریکی صدر بل کلنٹن کی جانب سے ایک بہت بڑی رقم ڈالرز کی صورت میں دی جانے کا وعدہ کیا گیا۔ یہ وہ رقم تھی جو پاکستان نے کچھ سال پہلے امریکہ کو پے کی تھی اسلحہ خریدنے کے لیے، نہ اسلحہ ملا تھا نا پیسے واپس ملے تھے۔ وہ رقم اور کچھ رقم سعودیہ سے لیکر نوازشریف کا منہ بند کرانے کا فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان ایٹمی تجربہ نہیں کرے گا۔لہٰذا نوازشریف آخر دم تک اس امید پر تھا کہ کہیں سے امریکہ سے پیسے مل جائیں۔

    ادھر امریکہ میں بل کلنگٹن کا ایک انتہائی برا اسکینڈل سامنے آ گیا! کلنٹن اپنی سیکرٹری مونیکالیونسکی کے ساتھ آفس اوورز میں سیکس کرتے ہوئے پایا گیا۔ اب امریکہ میں ایسا کیس کوئی معنی نہیں رکھتا مگر قوم سے جھوٹ بولنا شدید جرم سمجھا جاتا ہے جو کہ کلنٹن نے اپنی عوام سے بولا کہ اس نے ایسا کوئی کام نہیں کیا۔ یہ جھوٹ کلنٹن کو صدرارت سے ہاتھ دھو بیٹھا! Pakistan Youm-e-Takbeer

    اسی کشمکش میں کلنٹن کا نوازشریف سے کیا وعدہ مر کھپ گیا اور نوازشریف کے ہاتھ سے کارگل بھی گیا اور ڈالرز! ادھر سے آرمی کی نوازشریف سے نفرت بڑھتی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نوازشریف کو ہر حال میں ایٹمی تجربے کو approve کرنا پڑا!

    ہمارے ملک کی ایک بہت بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اسکو کریڈٹ نہیں دیتے جسکا حق بنتا ہے! ایٹمی پروجیکٹ بھٹو کا ہے اور بھٹو کے بعد پاکستان کی آرمی نے اسکو اپنے خون پسینے سے سیچنا ہے! یہ کئی ایک دھائیوں اور سینکڑوں لوگوں کے انتھک محنت تھی اس میں نوازشریف کا کردار اتنا ہی ہے جیسے عقیقے پر کھسروں کے ڈانس میں ایک کھسرا پیچھے کھڑا تالیاں بجا بجا کر کریڈٹ وصول کر رھا ہوتا ہے!

    Pakistan Youm-e-Takbeer, Pakistan Nuclear Test, Pakistan Atomic Program, Project 706, Chagi1, Zulifqar Ali Bhutto, Zia ul Haq, Pakistan Army, Bill Clinton, 

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    بقلم مسعودؔ – ڈنمارک 12 جون 2019

    Pegham Logo Retina

  • بھیگی ہوئی آنکھوں کا

    بھیگی ہوئی آنکھوں کا

    [dropshadowbox align=”center” effect=”raised” width=”75%” height=”” background_color=”#284649″ border_width=”2″ border_color=”#8efffb” ]

    غزل

      بھیگی ہوئی آنکھوں کا یہ منظر نہ ملے گا
    گھر چھوڑ کے نہ جاؤ کہیں گھر نہ ملے گا

    پھر یاد بہت آئی گی زلفوں کی گھنی شام
    جب دھوپ میں سایہ نہ کوئی سر پے ملے گا

    آنسو کو کبھی اس کا قطرہ نہ سمجھنا
    ایسا تمہیں چاہت کا سمندر نہ ملے گا

    اس خواب کے ماحول میں بے خواب ہیں آنکھیں
    بازار میں ایسا کوئی زیور نہ ملے گا

    یہ سوچ کو اب آخری سایہ ہے محبت
    اس در سے اٹھو گے تو کوئی در نہ ملے گا

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    شاعر: ؟؟

    [/dropshadowbox]

    [dropshadowbox align=”center” effect=”curled” width=”75%” height=”” background_color=”#f5f5f5″ border_width=”3″ border_color=”#031858″ ]

    ساری دنیا گھوم آؤ جو سکون تمہیں میری بانہوں میں ملے گا وہ کہیں اور نہیں ملے گا۔ یہ میری آنکھوں میں قطرے ساجن نہ ملیں گے، کوئی تیرے دکھ میں نہیں روئے گا، یہ میری زلفوں کی شام، میرے چہرے کا اجالا ہے تیرے لیے بیکل ہے، جب الم زدہ دن، کرب بھری راتیں ستائیں گی، چاند کی چاندنی بھی چبھے گی، سورج کی کرنیں جلائیں گی تو تمہیں میری ہی زلفوں کی گھنی شام یاد آئے گی۔ میری چتون کا ایک ایک قطرہ تمہارے لیے چاہت کا ایک بیکراں سمندر ہے جاناں، مجھے سیم تو زر کی زیورات نہیں چاہیے بس ان بے خواب آنکھوں کے سپنے ہی زیور انمول ہے۔ یہ سوچ لو ساجن تیرے لیے میری محبت کا سمندر بحرِ بیکراں ہے اس محبت کو ٹھکرا گئے تو تمہیں کہیں محبت کا در نہ ملے گا۔۔۔

    اردوشاعری

    [/dropshadowbox]

  • صاف ظاہر ہے نگاہوں سے

    صاف ظاہر ہے نگاہوں سے

    [dropshadowbox align=”center” effect=”raised” width=”75%” height=”” background_color=”#284649″ border_width=”2″ border_color=”#8efffb” ]

    غزل

      صاف ظاہر ہے نگاہوں سے کہ وہ ہم پرمرتے ہیں
    منہ سے کہتے ہوئے یہ بات مگر ڈرتے ہیں

    اِک تصویرِ محبت ہے جوانی گویا
    جس میں رنگوں کے عوض خونِ جگر بڑھتے ہیں

    عشرتِ رفتہ نے جا کر کیا یاد ہمیں
    عشرتِ رفتہ کو ہم یاد کیا کرتے ہیں

    آسمان سے کبھی دیکھی نہ گئی اپنی خوشی
    اب یہ حالات ہیں کہ ہنستے ہوئے ڈرتے ہیں

    شعر کہتے ہو بہت خوب تم اخترؔ لیکن
    اچھے شاعر یہ سنا ہے کہ جواں مرتے ہیں

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    شاعر: اخترشیرانی

    [/dropshadowbox]

    [dropshadowbox align=”center” effect=”curled” width=”75%” height=”” background_color=”#f5f5f5″ border_width=”3″ border_color=”#031858″ ]

    چھپی چھپی سی مسکان، ہلکی ہلکی شرارت، کبھی دیکھ کر مسکرا دینا، کبھی مسکرا کر دیکھ لینا، دل میں اظہارِ محبت، ہونٹوں پر خوفِ دنیا، نہ اظہار نہ اقرار، یہ عہدِ جوانی کی تصویریں، یہ محبت کی تعزیراں، خوںِ جگر، اُدھر اِدھر، ماضی کی باتیں، باتوں کیا حسرتیں، یادیں، اذیتیں، انجانی خوشیاں انجانے دکھ، ایک جملہ محبت کیا کہدو، ہر طرف کیدو ہی کیدو، جہاں دشمن، آسمان دشمن، اندر ہی اندر، دھڑکن بھی مکدر، ہنسی ختم، شُتم ہی شُتم، اچھی باتیں، ویران راتیں۔۔

    اردوشاعری

    [/dropshadowbox]


  • عشق میں ہم تمہیں کیا بتائیں

    عشق میں ہم تمہیں کیا بتائیں

    [nk_awb awb_type=”color” awb_color=”rgba(21,117,109,0.19)”][dropshadowbox align=”none” effect=”vertical-curve-both” width=”auto” height=”” background_color=”#c8efff” border_width=”2″ border_color=”#0d146d” ]

    غزل

    عشق میں ہم تمہیں کیا بتائیں، کس قدر چوٹ کھائے ہوئے ہیں
    غم نے مارا ہے ہم کو اور ہم زندگی کے ستائے ہوئے ہیں

    اے لحد اپنی مٹی سے کہہ دو، داغ لگنے نہ پائے کفن کو
    آج ہی ہم نے بدلے ہیں کپڑے آج ہی ہم نہائے ہوئے ہیں

    اُن کی تعریف کیا پوچھتے ہو، عمر ساری گناہوں میں گزری
    پارسا بن رہے ہیں وہ ایسے، جیسے گنگا نہائے ہوئے ہیں

    کیا ہے دستورِ دنیا خدارا، مرتے دم تک کسی نے نہ پوچھا
    بعد مرنے کے میت کو میری لوگ سر پہ اٹھائے ہوئے ہیں

    اُس نے شادی کا جوڑا پہن کر صرف چوما تھا میرے کفن کو
    بس اُسی دن سے جنت کی حوریں، مجھ کو دولہا بنائے ہوئے ہیں

    کیا ہے انجامِ الفت پتنگو! آ کے شمع کے نزدیک دیکھو
    کچھ پتنگوں کی لاشیں پڑی ہیں، پر کسی کے جلائے ہوئے ہیں

    [/dropshadowbox]

    [dropshadowbox align=”none” effect=”vertical-curve-both” width=”auto” height=”” background_color=”#c8efff” border_width=”2″ border_color=”#0d146d” ]

    شاعر:

    [/dropshadowbox]

    [dropshadowbox align=”none” effect=”vertical-curve-both” width=”auto” height=”” background_color=”#dcf1fa” border_width=”2″ border_color=”#0d146d” ]

    ہائے یہ عشق!

    یہ امن و سکون کا دشمن! یہ تن من کو تڑپانے والا عشق! ہائے ہم تمہیں کیا بتائیں کہ اس عشق نے اس دل پر کیا وار کیا ہے۔ ہائے ایک پل سکون نہیں، پل پل تڑپ، پل پل جلن – بے خودی – بے سدھی!  غم ہی غم الم ہی الم! ایسا دکھ کہ زندگی بھی بوجھ لگ رہی ہے – ہائے عشق!

    ہم عشق کے مارے ہوئے ہوئے شہزادے ہیں اے لحد، ہمارا لباس توھین عشق میں سنا ہوا ہے، اے لحد اس لباس کو داغ نہ لگے! شعر یاد آیا:

    میری موت پریوں کے جھرمٹ میں ہو گی
    جنازہ حسینوں کے کاندھوں پہ ہو گا
    کفن میرا انکا دوپٹہ بنے گا
    بڑی شان سے میری میت اٹھے گی

    سو یہ کفن انکے دوپٹے سے بنا ہے اے لحد اپنی مٹی کو اس سے دور رکھنا۔۔۔ وہ جو ساری عمر ہمیں تڑپاتے رہے جلاتے رہے ترساتے رہے وہ خود کو عشق میں ایسا پارسا سمجھ بیٹھے ہیں کہ جیسے ان کے تن کے ایک ایک جز آبِ تاب میں نہایا ہوا ہے۔۔۔ مگر وہ عشق کا کافر! وہ عشق کا کناہگار! اسکی تعریف ہم سے پوچھ! عشق میں ہم تمہیں کیا بتائیں!

    اے لحد تم نے دیکھا! دنیا کسقدر ہیچ ہے؟ تاعمر ہمیں گناہگارِ عشق کہہ کر نفرت کرتی رہ اور اب بعد از مرگ ہمی کو کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔۔۔ جنازہ حسینوں کے کاندھوں پر ہو گا۔۔۔ 

    اے لحد تم نے دیکھا! وہ لاکھ کافرِ عشق ہے مگر اسکا ایک لمس! اسکا ایک بوسہ! اسکا ایک ٹچ نے حوروں کے دل میں وہ حسرت پیدا کر دی کہ حوریں ہمیں دولہا بنائے پھر رہی ہیں۔۔۔ ہائے وہ لمس! وہ بوسہ!

    پیار! انجام الفت! فقط موت! اے لحد اپنی مٹی سے کہنا کہ ہم مقتولِ عشق ہیں اور عشق کا انجام ہی موت ہے – پروانوں کا بھی، دیوانوں کا بھی!

    [/dropshadowbox]

    [/nk_awb]

    Ishq mein ham tumhein kya bataein, chot, gham, ghamgeen, urdu poetry, urdu shayeri, kafan, kaafir, lams


  • کلامِ ساغر: نگاروں کے میلے

    [nk_awb awb_type=”color” awb_color=”#41ebf4″][dropshadowbox align=”none” effect=”lifted-both” width=”auto” height=”” background_color=”#aef7fa” border_width=”3″ border_color=”#080f62″ ]

    کلامِ ساغر: نگاروں کے میلے

    [/dropshadowbox][dropshadowbox align=”none” effect=”lifted-both” width=”auto” height=”” background_color=”#aef7fa” border_width=”3″ border_color=”#080f62″ ]

    نگاروں کے میلے ستاروں کے جھرمٹ
    بہت دلنشیں ہیں بہاروں کے جھرمٹ

    جواں ہیں اگر ولولوں کے تلاطم
    تو موجوں میں بھی ہیں کناروں کے جھرمٹ

    میرے چار تنکوں کی تقدیر دیکھو
    چمن در چمن شراروں کے جھرمٹ

    تیری گیسوؤں سے جنم پا رہے ہیں
    گلستاں گلستاں نظاروں کے جھرمٹ

    چھلکتا رہا ہے میرا جام زریں
    مہکتے رہے ہیں چناروں کے جھرمٹ

    تجھے یار رکھیں گی ساغرؔ بہاریں
    تری شعر میں گلغداروں کے جھرمٹ

    [/dropshadowbox]

    شاعر: ساغرصدیقی

    [/nk_awb]

    Nigar, mailey, sitarey, jhurmat, dilnasheen, bahar, mauj, kinara, tinka, taqdeer, chaman, gaisoo, nazara, jaam, Saghir Siddiqi, Shair

  • Kheer Pakk Rahi Hai

    Kheer Pakk Rahi Hai

    جس برق رقتاری سے #لوہار ہائیکورٹ نون گینگیوں کو آزادی کے پروانے جاری کر رھی ھے! وہ کس بات کی غمازی کر رھا ھے؟

    ذرا حالات کا جائزہ لیتے ھیں۔۔ Kheer Pakk Rahi Hai Kheer Pakk Rahi Hai Kheer Pakk Rahi Hai

    وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر بڑے وثوق کیساتھ اعلان کیا ھے! کہ وہ کسی کو کسی قسم کا کوئی این آر او نہیں دینگے۔

    اگر وزیراعظم کے لہجے میں لچک ہوتی! اور مجرموں کو کوئی امید لاحق ہوتی! تو شاید حنیف عباسی جیسے پالتووں کی قربانی دی جا سکتی تھی۔! مگر ایسا کوئی کچھ نظر نہیں آرھا لہذا اب وقت ھے اپوزیشن کے پلان بی کا۔

    پلان بی کا آغاز ا

    پلان بی کی ابتدا مولانا منافق فضل الرحمٰن کی نوازشریف ملاقات سے شروع ہوتی ھے۔! اس میں بدکردار اپوزیشن کی کوشش ہو گی کہ جتنے بھی دھتکارے ہوئے لوگ ھیں! اب وہ سب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر حکومت دشمن کاروائیوں میں ملوث ہونگے۔

    اس میں خودکار بم دھماکے ہونگے! جو ملک میں افراتفری پھیلانے کے کام آئینگے۔! یہ الزامات لگائے جائیں گے کہ حکومت دہشتگردیوں کو روکنے سے نااھل ھے لہذا استعفی دے۔

    ان کاروائیوں میں لاہورہائیکورٹ کا کردار سب سے اہم! اور سب سے بدکردار ہو گا! جو نون لیگیوں کو کھلم کھلا معافی عام دے گی۔! اس سے نجات پانے والے حنیف عباسی جیسے پالتو ایک مسلسل اور انتھک سازش کے لئے! استعمال کئے جائیں گے جس میں پراپوگنڈا عروج پر لایا جائے گا۔

    اس پراپوگنڈا میں وہ بیوکریسی جسے نوازشریف اور زردادری نے حرامخوری کے ذریعے پچھلے 35 سال سے پروان چڑھایا ھے! وہ حرکت میں لائی جائے گی۔ ضمیرفروشی کا جو بیج چھانگا مانگا کے جنگلوں میں بویا گیا تھا،! وہ اب ثمر دینا شروع کریں گے۔

    خریدوفرخت کی اشیا میں ناجائز اور غیرقانونی اضافہ کیا جائے گا۔! قیمتیں آسمانوں سے باتیں کریں گی! اور جب جب جہاں جہاں حکومت حکومت ایکشن لے گی! یہ ضمیرفروش بیوکریسی ذخیرہ خوزی کرنے لگ جائے گی۔ 

    میڈیا

    ان کاروائیوں میں ایک اہم اور مرکزی کردار میڈیا ادا کرے گا۔

    وہ صحافتی طوائفیں جو نوازشریف کیساتھ سفر میں شامل تھیں! اور وہ صحافتی طوائفیں جو لفافے نہ ملنے پر حلال کھانے پر مجبور ہو چکے ھیں! وہ ابھی سے اپنے اپنے چینلوں کے ذریعے اور خاص کر سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹ کا پلندہ بن کر اس رزق کو حلال کر رھے! ھیں جو انہیں کھلایا جا چکا ھے۔

    اگر کوئی صحافی اپنے پروگرام میں اسحق ڈار جیسے ناسور! اور غلیظ اور وطن دشمن اور مفرور انسان کو مدعو کر کے ملکی معیشت پر سوال جواب کرتا ھے! تو وہ صحافی دشمن وطن کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا! وہ صحافی بدکاری اور حرامخوری کی سب سے بدترین مثال ھے چاھے! وہ کوئی بھی ہو اور کسی بھی چینل سے وابستہ ہو!

    اسحق ڈار اس ملک کا ناسور ھے! مجرم ھے! اس کا ملکی مسائل پر بات کرنا ھی ملک سے غداری کے مترادف ھے!

    لابی

    حکومت کو چاہیے ایک مفصل لسٹ جاری کر دے! جس میں اہم ترین اشیأ خورد و نوش کی قیمتیں سرکاری سطح سے متعین کر دی جائیں۔! اگر کوئی اس لسٹ سے بڑھ کر قیمت مانگے تو صارفین سیٹیزن پورٹل سے! اس دکاندار کی شکایت کریں جس پر سرکاری کاروائی کی جائے۔

    موجودہ حکومت کی کامیابی اور ناکامی نہ ہی تو خارجہ پالیسی سے ہو گی! نا اقتصادیات سے! ان دونوں میں پی ٹی آئی کی حکومت بخوبی کامیاب ہو گی۔! سب سے اہم داخلہ پالیسی اور اس میں خاص کر وہ بیوکریسی ہے! جنکی دوسری نسل اس حرامخوری اور ضمیر فروشی میں ملوث ہو چکی ہے! جس کی ابتدأ نون گینگ نے چھانگا مانگا میں کی تھی۔

    جو قوم کم محنت کر کے زیادہ کھانے کی عادی ہو چکی ہو! اسے حق حلال پر لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔! اگر وہ اپنے روش بدلے گی تو چیخے گی، اور اس چیخ و پکار میں بہت سارے ایسے کام کرے گی! کہ اس سے بچ سکے: مہنگائی، افراتفری اور پراپوگنڈا یہ سب مؤثر ہتھیار ہونگے۔ !آنے والے دنوں میں سندھ اور پنجاب سے  پراپوگنڈا کی ایک زبردست لابی اٹھنے والی ہے۔ 

    اس لابی میں سابق ججز کے ساتھ منشیات فروش، بیوکریسی کے خاص بندے، میڈیا کی صحافتی طوائفیں، سوشل میڈیا پر نون لیگ اور پی پی پی کی اہم ترین “خواتین” جو چادر اور چاردیواری کا نعرہ بلند کریں گی۔

    Lahore High Court, PMLN, PPP, PTI, Pakistan Siyasat Politics, Social Media of Paksitan,

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    بقلم: مسعودؔ

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    Kheer, Propoganda, Pakistani Media, #PPP, #PMLN

    SC orders 500 Buildings in Karachi to raze

  • Ehtisaab – aik dhong ya?

    Ehtisaab – aik dhong ya

    پیشیاں

    31 دسمبر 2018 کو زرداری اور فریال تالپور نیب عدالت پیش ہوئے تھے جہاں انکی عبوری ضمانت قبول کی گئی

    اسکے بعد وقفے وقفے سے نیب عدالت انکو سمن کرتی رہی! اور پھر انکی عبوری ضمانت میں توسیع کر دی جاتی۔ آج اپریل کی آٹھ ہو گئی ہے! اور آج مزید دو ہفتے کی توسیع کر دی گئی۔

    نیب، سپریم کورٹ، عدالتیں، ادارے – یوں لگتا ہے! جیسے پاکستان میں چھپن چھپائی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے! کہ “میں پکڑتا ہوں، تم چھوڑ دینا، تم پکڑنا فلاناں چھوڑ دے گا”

    یوں لگتا ہے کہ ہمارے ادارے یہ چاہتے ہیں! کہ تبدیلی کے نام پر جو ووٹ دیا گیا ہے! اس کو اسقدر غیرمؤثر کر دیا جائے کہ عوام انتشار میں آ کر اس تبدیلی سے مایوس ہو جائے۔! ادارے ایک عجیب گھنواؤنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اداروں کی چال ڈھال سے نظر آتا ہے !کہ حکومتِ وقت نے سچ مچ ان کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے،! لہٰذا وہ آزادانہ اور جان بوجھ کر انصاف کو داؤ پر لگا انہیں لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں! جنہوں نے انہیں پالا تھا۔

    ملک ریاض جو اس ملک کا سب سے بڑا غیر سیاسی کرپٹ انسان ہے اسے چند کڑوڑ لیکر معاف کر دیا!

    نیب کے پاس “شواہد” موجود ہیں اور حمزہ شہباز کو گرفتار کرنا ہے! مگر انکی “ہمت” نہیں کہ گرفتار کر سکیں! ایک شہر کی ایک عدالت نے نیب کو حکم دیا ہے !کہ تمہیں اجازت ہی نہیں کہ ہمارے شہری کو پکڑ سکو! جبکہ یہ وہی نیب ہے جس نے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت،! پاکستان سپریم کورٹ کے فیصلے کو منسوخ کر کے نوازشریف کو آزاد کر دیا تھا!  Ehtisaab – aik dhong ya?

    عدالتیں

    ایک شہر کی عدالت کا فیصلہ اسقدر اہم کہ اسکے سامنے سپریم کورٹ بھی بے بس اور ملک گیر ادارہ نیب بھی بے بس! وہ شہر جس نے مسلم لیگ نون کو ہر طرح سے تحفظ اور نمک حلالی کا عہد کر رکھا ہے،! اسکے سامنے ملک کی سپریم کورٹ بھی کوئی فیصلہ نہیں دے سکتی! اسی شہر میں سرکاری سرپرستی میں قتل و غارت کا ایک بدترین کھیل کھیلا جاتا ہے! اور  جب اسکی تفتیش کے لیے ایک جے آئی ٹی بنتی ہے تو اسی شہر کی عدالت اس کو کام کرنے سے روک دیتی ہے۔

    ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ بھی منہ تکتے رہ جاتی ہے! اور اسکی جرأت نہیں ہوتی کہ وہ یہ حکم نامہ جاری کرے کہ جے آئی ٹی اپنا کام جاری رکھے! یوں لگتا ہے جیسے یہ قتل عدالتوں سے پروانے لیکر کیے گئے ہیں!

    طوائف اپنا جسم بیچتی ہے تو اپنے لیے گناہ اکٹھا کرتی ہے !– عدالتیں جب دلالی کرتی ہیں تو وہ ایک قوم کی تباھی کا سبب بنتی ہیں! ہماری عدالتیں دلالی کرتی ہیں!

    احتساب کے نام پر عوام کو بے وقوف اور جاھل بنایا جا رھا ہے۔! ہمارے ادارے یہ نیت ہی نہیں رکھتے کہ کسی کا احتساب ہو۔ ادارے اس نیت سے کام ہی نہیں کر رہے کہ احتساب کے عمل کو شفاف بنا کر ملزمان کو سزا دی جائے۔! ابتک کسی ایک کیس کا کوئی ایک حتمی انجام نہیں ملا۔ اگر کوئی انجام ہوتا ہے تو دوسرا ادارہ اسکو منسوخ کر دیتا ہے۔

    حیثیت

    موجودہ حالات سے اس بات کو سمجھنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے! کہ کس ادارے کی قانوناً کیا حیثیت ہے! کونسا ادارہ کس کے حکم کا پابند ہے۔ کون کس نیت سے کام کر رھا ہے۔ تاحال یہی سمجھ آ رہی ہے! کہ احتساب ایک ڈھونگ ہے مزید کچھ نہیں!

    ایک ڈھونگ رچا ہوا ہے – احتساب کا، انصاف کا، قانون کا اور تبدیلی کا۔

    شاید حکومتِ وقت کو ان اداروں پر”قبضہ” ہی کرنا ہو گا – جبھی تبدیلی آئے گی۔

    ہمارے اعلیٰ ظرف ججز صاحبان عمرِ فاروق کی مثالیں دیکر عوام کو محسور کر لیتے ہیں! اور پھر اپنے انہیں لچھن پر آ جاتے ہیں جن پر وہ پہلے تھے۔

    ہماری عدالتوں کے ماتھوں پر قرآن کی آیات لکھ کر عوام کو بیوقوف بنا دیا جاتا ہے! کہ یہ مسلمان عدالت ہے جبکہ کرتوت انکے کافروں سے بھی بدتر اور غلیظ ہیں! اگر یہ عدالتیں ایک مسلمان ملک کی نمائیندگی کرتی ہیں! تو خدا کی قسم کافر یورپ کی عدالتیں ان سے لاکھ درجہ قابل احترام ہیں، جہاں  اگر شریفی، زرداری ، ملک ریاض جیسے کرپٹ ہوتے تو کب کی انکی جائدادیں ضبط، کاروبار ٹھپ اور جیل انکا نصیب بن چکی ہوتی۔

    Ehtisaab, NAB Pakistan, National  Accountability Bureau, Pakistan Judiciary System, Lahore High Court, Pakistan Supreme Court.

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    بقلم : مسعودؔ

    SC orders 500 Buildings in Karachi to raze

  • Education System for Pakistan

    Education System for Pakistan

    [mks_separator style=”solid” height=”4″]

    پاکستان کا تعلیمی نظام

    [mks_separator style=”solid” height=”1″]

    [dropshadowbox align=”none” effect=”raised” width=”auto” height=”” background_color=”#fff767″ border_width=”2″ border_color=”#842500″ ]اکثر لوگ پاکستان کے نظامِ تعلیم سے سخت نالاں ہیں، پاکستان کا نظامِ تعلیم تبدیلی مانگتا ہے![/dropshadowbox]

    [mks_icon icon=”fa-asterisk” color=”#000000″ type=”fa”]

    محکوم علم

    اقرأ وہ لفظ ہے جو حضرت جبرئیل نے نبی پاک ﷺ کو سب سے پہلے پڑھایا! اور ایک اتائی کو علم کی روشنی سے منور کر دیا۔

     علم کی وہ روشنی جس نے پھر ایک سوئی ہوئی دنیا میں ایسا انقلاب پھونک ڈالا! کہ جس سے یورپ  بیدار ہوا اور مسلمانوں کے علم سے استفادہ کر کے ساری دنیا پر چھا گیا۔

    دنیا تو کیا وہ یورپ آسمانوں پر احاطے باندھنے لگا اور چاند کو بھی اپنے پاؤں تلے روند ڈالا۔

    وہ علم جو مسلمانوں کی وراثت تھا۔! وہ علم جس سے مسلمانوں کی تعمیر ہوئی وہ علم مسلمانوں سے چھین لیا گیا۔

    جب کوئی قوم محکوم ہوتی ہے تو اسکا علم بھی محکوم ہو جاتا ہے۔! یہی ہوا۔ ہمارا علم بھی ہمارے ضمیروں کی طرح محکوم ہو گیا۔

    اور ہم نے اپنے آپ کو – اپنی خودی کو بھلا کر -تو تو میں میں- میں فتنے فساد کرنے شروع کر دئیے! اور یورپ ہمارے سروں کی قیمت لگانے لگا۔ 

    ہماری سوچیں اسقدر محکوم ہو گئیں کہ ہمیں سکھا دیا گیا! کہ “پاکستان چودہ اگست کو آزاد ہوا” – یعنی پاکستان پہلےمحکوم تھا گویا۔

    میں اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہوں۔! پاکستان چودہ اگست کو آزاد نہیں ہوا تھا، قائم ہوا تھا! یہ وہ ملک ہے جو ایک دینی تصور کی بنیادوں پر قائم ہوا۔ یہ محکوم نہیں تھا – قائم ہوا ہے۔

    ہندوستان محکوم تھا، ہندوستان پندرہ اگست کو آزاد ہوا تھا۔

    ظاہری سے بات ہے جب علم و عقل اور ضمیر و ہنر سب کچھ محکوم ہوں! تو حاکم کی ہر بات کو تسلیم کرنا پڑتا ہے! لہٰذا ہمارے ہاں بھی اسی بات کو قبول کر لیا گیا کہ 14 اگست ہمارا یومِ آزادی ہے۔

    درحقیقت انسان کو معراج علم و عمل کی بنا پر ملتا ہے۔! نبی پاک ﷺ کو معراج سالہا سال کی عبادت، علم و عمل کے بعد حاصل ہوا۔

    ہماری قوم ہنوز عقل و علم و ہنر میں اپنے بچگانہ پن میں ہے۔!  پاکستانی قوم کو علم و عمل میں معراج حاصل کرنے کے لیے اپنے نظامِ تعلیم پر خاص توجہ دینا! ہو گی۔

    [mks_separator style=”solid” height=”1″]

    ہمارا نظامِ تعلیم

    [mks_separator style=”solid” height=”1″]

    ہمارے ہاں نسل در نسل ایک جیسا سلیبس، ایک جیسی کتابیں  چلتی ہیں۔! ملک بھر میں اپنی من مانی کا سلیبس چلتا ہے۔! کہیں ایسا اسٹینڈرڈ نہیں جو قوم کی اجتماعی تریبت کر سکے۔ جتنے اسکول ان کے اتنے ہی اندازِ تعلیم پائے جاتے ہیں۔

    تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے جس پر اس ملک میں شاید سب سے کم توجہ دی گئی ہے۔

    سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پاکستان میں 3 طاقتیں برسرِ اقتدار رہی ہیں: پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان فوج!

    ان تینوں نے کبھی اس بات پر توجہ دی ہی نہیں کہ علم پر توجہ دی جائے۔! نون لیگ اور پی پی پی کے لیے تو یہ خوب تر تھا کہ عوام جسقدر جاھل رہے گی اسقدر فرمانبردار رہے گی۔! کیونکہ جاھل کو ایک پلیٹ بریانی پر یا روٹی کپڑا اور مکان پر ٹرخایا جا سکتا ہے! مگر ایک علم یافتہ انسان اپنے حقوق مانگتا ہے! اور اگر وہ اپنے حقوق مانگے گا تو وہ شاہنشاہت جو یہ دونوں پارٹیاں میثاقِ جمہوریت کے نام پر قائم کرنا چاہتی ہیں! – وہ کیسے قائم ہوں؟

    ان پارٹیوں کی یہی سوچ ہے کہ تعلیم کو ایسا بنا دیا جائے  !جن کی اعلیٰ سطح پر اپروچ ہے وہ اپنی اولادوں کو عوام کے پیسے! پر یورپ کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں علم دلایا جائے جبکہ باقی ماندہ ملک میں جو علم حاصل کرنا چاہتے ہیں کریں! – نہیں کرنا چاہتے نہ کریں – سانوں کی۔  ہم تو اپنی اولادوں کو اسی عوام کے پیسہ پر یورپ کی عالیشان اسکولوں میں پڑھائیں گے! اور پھر اسی عوام پر مسلط کریں گے۔

    نظامِ تعلیم کو ایسا ناقص اور بے جان کر دیا جائے! کہ اگر کسی غریب کا بچہ کچھ پڑھ لکھ بھی جائے تو اسکو اچھی جاب نہ ملیں۔! یہی وجہ ہے کہ اکثر پڑھے لکھے یا تو ملک چھوڑ جاتے ہیں یا پھر بندوقیں اٹھا کر چور اچکے بن جاتے ہیں،! یا پھر رکشے اور چائے کے ٹھیلے لگا لیتے ہیں۔

    اکثر متوسط اور غریب طبقے کے والدین اپنے بچوں کو اسکول بھیجتے ہی نہیں۔! وہ – جانے انجانے – جانتے ہیں کہ جو معیارِ تعلیم ہے اس میں اگر بچوں پر اتنا پیسہ برباد کر بھی انہیں تیشہ کانڈی، کارپٹ بننا اور لوہار ترکھان یا درزی کے پاس ہی بٹھانا ہے! تو بہتر ہے کہ وقت اور پیسہ برباد نہ کیا جائے !اور بچپن ہی سے انہیں کوئی ہنر سکھا دیا جائے۔

    یہ کسی قیامت سے کم نہیں کہ ڈھائی کڑوڑ بچہ اسکول جانے سے محروم ہے! ڈھائی کڑوڑ!!

    یورپ کے کئی ممالک کی آبادی ملا! کر بھی ڈھائی کڑوڑ نہیں بنتی جتنے بچے ہمارے اسکولوں سے محروم ہیں! – یہ وہ بچے ہیں جو اس ملک کے معمار ہیں! کیا ابھی بھی ہمیں سمجھ نہیں ائے گی! کہ مغرب ہم پر حکمرانی کیوں کر رہا ہے؟

    تعلیم کسی بھی قوم کے عروج و زوال کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے۔! لیکن تعلیم میں معیار بھی ہونا چاہیے۔! وہ تعلیم جس میں سالہاسال ایک جیسے امتجانات دئیے جائیں، جس میں پیپرز فیس بک پر مل جائیں،! جہاں پیسہ دیکر نقل کرائی جائے وہ تعلیم سب سے بڑا ناسور ہے!

    اور یہی وہ ناسور ہے جو اس ملک کی رگوں میں پل رہا ہے۔ تعلیمی ناسور۔

    آج ہمارا نظامِ تعلیم نہ علم دیتا ہے نہ عمل!

    ایک طرف اسکول کی تعلیم – وہ بھی ناخالص! دوسری طرف مدرسہ ہے تو وہ بھی بے جان!

    مدرسوں میں بھی زبردست رٹہ رٹائی ہے۔! طالبعلموں کو اسلام سکھانے کی بجائے مولوی ازم سکھائی جاتی ہے۔ !ہر مدرسہ کسی دوسرے کے مدرسہ کی نسبت بات کرنا بھی کفر سمجھتا ہے۔

    تمہیں قرآن و حدیث کی سمجھ ہو ہی نہیں سکتی لہذا تمہیں جو سکھا دیا جائے وہی سیکھ لو! – اس پر مدرسے کے بچوں کی تربیت ہو رہی ہے۔

    رٹے لگا لگا کر حافظِ قرآن پیدا کیے جا رہے ہیں !– جبکہ وقت کی پکار ہے کہ حافظِ قرآن کی بجائے حاملِ قرآن پیدا کیے جائیں!

    انہیں میں سے اکثر مدرسے پھر اپنی انتہا پسندی میں اس مقام پر جا پہنچتے ہیں! کہ صبر و برداشت، تحمل و سکون، اعتدلال و بیلنس بالکل کھو کر دہشتگرد بن جاتے ہیں۔

    نہ معلم پیدا ہو رہے ہیں نہ عالم! سائنسدان پیدا ہو رہے نہ  حاملِ قرآن! نہ دین میں کوئی مقام ہے نہ دنیا میں!

    جو جو جہاں جہاں جو جو سیکھ رھا ہے وہی اسکا اثاثہ ہے – مگر اجتماعی طور پر ہم زبردست ناکام ہیں۔

    جو نظامِ تعلیم میں دینا چاھتا ہوں اس میں اسلام کو مولویوں کے چنگل سے آزاد کرنا ہے۔! اس نظامِ تعلیم میں طلبہ کو اس مقام پر لایا جائے گا جہاں وہ خود قرآن کو سمجھ سکیں گے۔

    پاکستان کے نظامِ تعلیم کو ایک مکمل تبدیلی کی ضرورت ہے۔! ایک ایسا نظام جو سارے ملک میں یکساں ہو۔! جو انسان کی تعمیر کر سکے نہ کہ اس پر علم کا رنگ چڑھا دے۔

    ایسے نظام کے لیے موجودہ نظام کو مکمل طور پر بدلنا پڑے گا۔

    تو پھر پاکستان کا نظامِ تعلیم کیسا ہونا چاہیے؟

    [mks_separator style=”solid” height=”1″]

    اصلاحات

    [mks_separator style=”solid” height=”1″]

    نظامِ تعلیم کا جو نقشہ میں پیش کرنے جا رھا ہوں اسکے لیے! کچھ ابتدائی اقدام کرنا ضروری ہیں۔! آئین میں اصلاحات ضروری ہیں۔

    سب سے پہلی اصلاح یہ کی جائے کہ پاکستان کی سرحدوں میں پیدا ہونے والے! ایک ایک بچے کے لیے بلا امتیاز وظیفہ مقرر کیا جائے۔

    وظیفہ پیدائش سے لیکر 18 سال کی عمر تک ہونا چاہیے !– مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی کی جائے۔  !جیسا کمسن بچوں کو زیادہ،  ٹین ایج بچوں کو کم۔ یہ والدین کی انکم پر منحصر ہونا چاہیے۔! ایک سسٹم متعارف کرایا جائے جو وظیفہ کا حساب کتاب کرے۔! اس طرح والدین کی انکم کا ڈیٹا بھی حکومت کے ڈیٹابیس میں آ جائے گا۔

    یہاں پر ایک اور اہم قانون پاس کیا جائے کہ ہر وہ بچہ جو وظیفہ پائے وہ ایک خاص میڈیکل پروگرام کے تحت تربیت پائے۔! وہ میڈیکل پروگرام ان بیماریوں اور خطرات سے حفاظت فرمائے جو بچوں کو لاحق ہوتی ہیں۔! ایسی بہت ساری بیماریاں جنہیں جاھلیت کی بنا پر مرغی، جن اور پتہ نہیں کیا کیا کہہ کر عاملوں سے بچوں کو تباہ کرایا جاتا ہے ان سے نجات دلائی جائے۔! جو پروگرام سب سے اہم ہو، وہ یہ ہو:

    [table id=4 /]

    یہ اصلاح کی جائے کہ ہر وہ بچہ جسے وظیفہ ملتا ہے وہ قانوناً اسکول کا پابند ہو گا! اگر کوئی والدین اپنے بچوں کو اسکول نہ بھیجیں مگر وظیفہ لیں انہیں! قانوناً سزا دی جائے۔ بچوں کی ہر طرح کی مزدوری کو آئین کے تحت جرم قرار دیدیا جائے۔

    تعلیم کو آسان کرنے کے لیے اسکول یونیفارم کو ختم کر دیا جائے! اسکی جگہ اس نئے نظامِ تعلیم سے ایسی تربیت کی جائے کہ طالبعلموں کا لباس صاف ستھرا اور مہذب ہو – اسکی تربیت نظامِ تعلیم سے ہو نہ کہ جبراً پہنائے گئے یونیفارم سے! اس طرح یونیفارم مافیا کا قلع قمع ہو گا!

    اس نئے نظامِ تعلیم کا ایک اور بہت ہی اہم پہلو یہ ہو گا کہ Segregation of Sexes کا خیال رکھا جائے گا۔ یعنی بچیوں کے لیے سارے کا سارا نظام الگ اور بچوں کے لیے الگ ہو گا! کو-ایجوکیشن ختم کر دی جائے گی۔

     اس نئے نظامِ تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ نظام کی ہر دیوار گرائی جائے: ہر طرح کے اسکول اور مدرسے کا لائسنس کو منسوخ کیا جائے۔ کہیں بھی کوئی بھی ادارہ کسی بھی طرح سے تعلیم سے وابستہ ہے اسکا لائسنس منسوخ کرنا ہوگا۔

    اور پھر جو نیا نظامِ تعلیم ترتیب دیا جائے اس کا نام المکتب رکھا جائے۔

    المکتب کے 4 جز ہونے چاہیے جن میں ہر طالبعلم کو گزرنا پڑے۔

    آئیے اب باری باری ان جز پر بات کرتے ہیں۔

    [mks_separator style=”solid” height=”1″]

    بازیچۂ اطفال

    [mks_separator style=”solid” height=”1″]

    پاکستان کی سرحدوں میں پیدا ہونے والا ایک ایک بچہ: چاہے وہ کسی بھی قوم، نسل، رنگ، ذات پات سے وابستہ ہو، وہ ریاست پاکستان کی ملکیت ہے! ریاست کا اس پر حق ہے! اور یہ حق جتاتے ہوئے ریاست یہ قانون پاس کر دے کہ  بچہ جب 3 سال کی عمر کو پہنچے تو اسے کنڈرگارٹن میں جمع کرایا جائے۔

    کنڈرگارٹن جسے اس نئے نظامِ تعلیم میں بنیادی اینٹ کی حثیت حاصل ہو گی، اسے بازیچۂ اطفال کا نام دیا جائے۔ بازیچۂ اطفال میں بچوں کی ابتدائی تربیت کی جائے۔ بچوں کو کھیل ہی کھیل میں دین، دنیا اور پاکی و نجاست سے لیکر کھانے پینے اور رہن سہن کے آداب سکھائے جائیں۔ بچوں کو قانون اور انصاف کی قدر کرنا سکھایا جائے۔

    ہر بازیچۂ اطفال میں بچوں کو بچوں کی گاڑیاں مہیا کی جائیں اور انہیں ٹریفک قوانین کا پاس کرنا سیکھایا جائے – بالکل ایسے جیسے اسکنڈینیویا میں ہوتا ہے۔

    بچوں کو سکھایا جائے کہ اگر آپ قوانین کا پاس نہیں کریں گے تو کیا کیا مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ یہ سب کھیل ہی کھیل میں سکھایا جائے۔

    ان کی کرٹیویٹی کو ابھارنے کے لیے بچوں کو کاغذات کاٹ کر مختلف اشکال بنانا سکھایا جائے – انہیں رنگوں کے ساتھ کھیلنا سکھایا جائے اور بچوں کا ٹیلینٹ ابھارا جائے۔

    بچوں کو سکھایا جائے کہ اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق صفائی کیسے ہوتی ہے۔ مل بیٹھ کر کھانا کیسے کھایا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کا خیال کیسا رکھا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کو اسکے اصل نام سے پکارا جائے – ہمارے ہاں ناموں کو بگاڑنا اپنی شان اور دوسرے کی توھین سمجھ کر کیا جاتا ہے – یہ غیراخلاقی ہی نہیں غیر اسلامی بھی ہے۔ نبی پاک ﷺ کا فرمانِ مبارک ہے کہ لوگوں کو انکے اصل نام سے پکارا جائے – ہمارے ہاں انسان کی تذلیل کرنا فخر سمجھا جاتا ہے! جبکہ میں یورپ میں دیکھا ہے کہ نبی پاک ﷺ کا فرمان پورا کیا جاتا ہے۔

    بازیچۂ اطفال میں بچہ 3 سال گزارے اور ان تین سالوں کا حدف یہ ہونا چاہیے:

    • اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی تعریف کرنا سیکھے
    • پہلے دو کلمے زبانی یاد کیے جائیں
    • ہندسوں اور الفاظ کی پہچان
    • پاکستان کے متعلق ابتدائی تعلیم
    • قانون اور اداروں کی نسبت علم
    • ابتدائی اخلاقیات: اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے سلام دعا کا طریقہ
    • ابتدائی اسپورٹس
    • اور ابتدائی تعلیم تاکہ پہلی جماعت کے قابل ہو

    بازیچۂ اطفال کی سب سے اہم خوبی یہ ہونی چاہیے کہ ایک ایک بچے کی نشونما پر خاص نظر رکھی جائے۔ اسکے جسمانی نشونما سے لیکر تعلیمی اور ذہنی۔ 

    ہر بچہ ان تین سالوں میں ایک سرکاری ڈاکٹر کی نگرانی میں رہے۔  اور درجہ بالا جو میڈیکل پروگرام دیا گیا ہے ڈاکٹر یہ یقینی بنائے کہ ہر بچے اور بچی کو یہ پروگرام دیا جائے۔ بچوں کی صحت اور تندرستی کی نسبت کسی قسم کی کا کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے!  ہر بچے کی فائل بنائی جائے جو اسکے ساتھ سالہاسال چلتی جائے۔ یہ ریکارڈ سرکاری ڈیٹابیس میں ہونا چاہیے۔

    چھ سال کی عمر میں بچوں کو اس قابل بننا چاہیے کہ وہ المکتب کے دوسرے جز داخل ہو سکے۔

    [mks_separator style=”solid” height=”1″]

    المکتب

    [mks_separator style=”solid” height=”1″]

    المکتب کا دوسرے جز کے ساتھ ہی بچوں کے لیے ایک نئی دنیا شروع ہو جائے گی۔ ایسی دنیا جس میں طالبعلم اپنے مستقبل کی بنیاد رکھیں گے اور ان کے مستقبل کی بنیاد پھر پاکستان کا مستقبل ہو گی۔

    اس جز کے دو حصے ہونگے: مدرسہ اور اسکول!

    جو موجودہ یعنی 2019 کا نظامِ تعلیم ہے اس میں مدرسہ اور اسکول اپنی اپنی راہیں متعین کیے بیٹھے ہیں۔ کسی قسم کی کوئی ہم آھنگی نہیں پائی جاتی۔ کسی قسم کا کوئی انٹرلنک نہیں ہے! اس چیز کو ختم کرنے کی ضرورت ہے اور اسکولوں اور مدرسوں میں ہم اھنگی پیدا کرنے کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے دونوں کو ایک چھت تلے جمع کیا جائے اور المکتب جز 2 کا نام دیا جائے۔

    اس میں دین سے وابستہ عالم ہوں۔ اس میں دنیاوی علوم سے وابستہ اساتذہ ہوں۔

    موجودہ نظامِ تعلیم میں جو پرائمری اور سیکنڈری اسکولز ہیں، انکو ختم کیا جائے اور پہلی جماعت سے دسویں تک تعلیم ایک ہی چھت تلے اکٹھی کی جائے۔

    ہر مکتب میں 20 جماعتیں ہونی چاہیے: پہلی سے دسویں تک – جماعت الف اور جماعت ب۔

    ہر جماعت میں طلبأ کی تعداد 30 سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔

    یوں ایک مکتب میں 500 سے زائد طلبا نہیں ہونے چاہیے۔

    المکتب جز دو میں تعلیم کا آغاز صبح کی نماز کے وقت سے کیا جائے۔ 

    ایک وقت کا تعین کیا جائے کہ مثال کے طور پر 05:40 پر نمازِ فجر ادا کی جائے گی۔ سارا سال اسی وقت کی پابندی کی جائے۔

    مکتب کی بلڈنگ کے اندر ایک پورشن ایسا ہو جو مسجد کا کردار ادا کرے۔

    تمام طلبأ نمازِ فجر کے لیے اس میں جمع ہوں اور نماز ادا کی جائے۔

    اسکے بعد صبح 06:00 پر مکتب کا آغاز ہو اور طلبأ اپنی اپنی کلاسز میں چلے جائیں۔

    ایک پیرئیڈ 45 منٹ کا ہو۔ پھر 15 منٹ کا وقفہ!

    سائسنی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہے کہ اعلیٰ الفجر کے وقت میں انسان زیادہ سیکھنے کے قابل ہوتا کیونکہ دماغ ریفرش ہوتا ہے اور سیکھنے کی قوت زیادہ ہوتی ہے۔

    مکتب میں کچھ جماعتیں دین کی تعلیم حاصل کریں اور کچھ دنیاوی علوم۔ اسی طرح پیرئیڈز بدلتے رہیں۔ تاکہ تمام جماعتیں دین اور دنیا دونوں علوم مساوی حاصل کریں۔

    پھر 08:00 بجے طلبأ کو ریاست کی جانب سے ناشتہ دیا جائے۔ ایکبار پھر یہاں پر جو کچھ بازیچۂ اطفال سے کھانے پینے کے آداب سیکھ کر آئے ہیں انہیں مزید پالش کیا جائے۔

    پھر کچھ علمی پیرئیڈز کے بعد 11:00 بجے طلبأ کو لنچ کرایا جائے۔ یہاں پر بھی آداب کو سکھایا جائے۔ کھانے کا خاص خیال رکھا جائے کہ کیا وہ کھانا جو بچے کھا رہے ہیں وہ انکی نشو نما کے موافق ہے؟

    لنچ کے بعد پہلی سے تیسری جماعت کے بچوں کو چھٹی دیدی جائے۔ باقی اپنی کلاسز پوری کریں۔

    مکتب میں جو بھی سلیبس پڑھایا جائے وہ ریاستِ پاکستان کا تصدیق شدہ ہو! چاھے وہ دینی علم ہو یا دنیاوی! وہ علم جدید طور اور طریقوں کو پورا کرتا ہو۔ وزیرِ تعلیم کی نگرانی میں ایک بورڈ ہو جو اس سلیبس کو ہر سال پرکھے اور اسکو ہر سال جدت بخشے۔

    اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ جو دینی علم دیا جا رہا ہے اس میں کوئی انتہا پسندی نہ ہو! اعتدلال اسلام کا ایک اہم جز ہے، اس جز کو پاکستان کی آنے والی نسلوں کی رگوں میں یوں شامل کیا جائے کہ انکے ذہنوں سے انتہاپسندی سے پیدا ہونے والی دھشتگردی کا خاتمہ کیا جا سکے۔

    جدید تعلیمات سے روشناس کرانے کے لیے کمپیوٹرز مہیا کیے جائیں۔ ہر مکتب میں سائنس کی سہولیات ہونی چاہیے۔

    ایک اہم بات جس سے ہمارے ہاں شدید لاپروائی برتی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اسکولوں میں علاقائی زبان لازمی سیکھانا چاھیے۔ علاقائی زبان سے مراد اگر یہ نیا اسکول راولپنڈی ڈویژن میں ہو تو اس علاقے کی لوکل زبان سکھائی جائے، اگر جنوبی پنجاب میں ہو تو وہاں کی اگر بلوچستان کے کسی علاقے میں ہو تو وہاں کی اسطرح جس جس علاقے میں المکتب اسکول قائم ہو وہاں وہاں کی لوکل زبان بھی سیکھائی جائے۔

    وہ رپورٹ جو بازیچۂ اطفال میں بچوں کے نام کے شروع کی جائے اور جو سرکاری ڈیٹابیس میں ہو، اسے جاری رکھا جائے اور ہر بچے پر خاص نظر رکھی جائے۔ انکی  رپورٹس اساتذہ ہر ماہ اپ ڈیٹ کریں۔ جہاں جہاں جس جس طالبعلم کو خاص توجہ کی ضرورت ہو اس پر بھی توجہ دی جائے۔ جہاں جہاں جو جو طالبعلم معمول سے اچھا اور بہتر ہے اس پر مزید خاص نظر رکھی جائے اور اسکے چیلنجز میں مزید اضافہ کیا جائے تا کہ ان کی ذہنی تربیت عروج پر پہنچائی جا سکے۔

    ملک بھر کے مکاتب کے درمیان ہر سطح پر مقابلوں کا انعقاد کیا جائے۔ ہر مضموں میں مکاتب کے طلبہ کو پرکھا جائے۔ خاص الخاص ٹیلینٹ کو نکال کر اسے مزید پالش کرنے کے لیے اسپیشل پروگرام ترتیب دئیے جائیں۔ ان مقابلوں میں حساب کے مقابلے ہوں، قرأت کے مقابلے ہوں، تقاریر کے مقابلے ہوں اور سائنس کی فیلڈ کے مقابلے ہوں۔  فنونِ لطیفہ سے لیکر ہر اس بات کو قومی سطح پر مقابلوں میں ڈھالا جائے تاکہ اچھا طرح سے طلبا کو نکھارا جائے۔

    اگر ہم پاکستان کو ایک خالص اسلامی ریاست دیکھنا چاہتے ہیں تو عربی کو لازمی زبان کا درجہ دیا جائے۔ ہر طالبعلم پر عربی سیکھنا لازمی قرار دی جائے۔ عربی کی تعلیم کے لیے اصل اور خالص عرب معلم مقرر کیے جائیں۔ جو گرامر اور تلفظ کی درست ادائیگی کے ساتھ طلبہ کو عربی سیکھائیں۔ ایسے کم سے کم دو معلم ہر مکتب کے ساتھ منسلک ہونے چاہیے۔ جو طلبا کو خالص دینِ اسلام سے روشناس کرائیں۔

    یہی سے پھر قرآن کی گرامر اور قرآن کی عربی کو بچوں کی رگوں میں ڈالا جائے۔ قرآن پر مناظرے کیے جائیں اور بچوں کو قرآن کی اصل روح سے متعارف کرایا جائے۔ بالکل اسی طرح جیسے نبی پاک ﷺ ایکبار اپنے گھر سے باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مسجدِ نبوی میں جا بجا قرآن اور فقط قرآن کی تعلیم پر زور دیا جا رہا ہے اور قرآن سمجھنے سمجھانے کا سلسلہ چل رہا ہے – بالکل ایسے ہی اس نظامِ تعلیم میں ہو کہ سب سے پہلے قرآن! اسکے بعد کوئی اور بات اور یہاں تک کہ حدیث اور فقہ بھی بعد کی بات ہے۔

    یہاں یہ واضح کرتا چلوں کہ! اس نئے نظامِ تعلیم میں اگر قرآن پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے تو اسکا! ہر گز یہ مطلب نہیں کہ حدیث یا فقہ نہیں پڑھایا جائے گا۔! وہ بھی اس نظامِ تعلیم کا ایک خاص حصہ ہو گا۔! مگر جہاں قرآن کی بات ہے تو وہ سب سے پہلے اور مقدم اور مسلم حیثت سے رائج کیا جائے۔

    یاد رکھیں کہ اسلامی ریاست میں فقہی اور قاضی پیدا کرنے کے لیے فقہہ اور حدیث کا علم اپنی جگہ مسلم ہے۔

    یہاں پر ایک خاص بات جو ایک شاطر قاری محسوس کرے گا! کہ میں نے قرآن و حدیث میں تراجم کے ساتھ پڑھنے کی بات نہیں کی!۔ درست بالکل نہیں کی! کیونکہ جب آپ بچوں کو عربی سیکھائیں گے! اور عربی کو لازمی قرار دے دیں گے تو تراجم کی ضرورت نہیں رہے گی۔! ترجمہ ہمیشہ تیسرے انسان کے نقطۂ نظر سے ہوتا ہے۔ اس پر اختلاف باندھا جا سکتا ہے۔! جبکہ جو بات آپ خود پڑھتے ہیں وہ اختلافات سے مبرا ہوتی ہے۔! وہاں پر عقل اور شعور عروج پاتا ہے اور وہ مناظر سامنے آتے ہیں جنکا ذکر اوپر مسجدِ نبوی کی حدیث میں کیا گیا ہے۔

    پاکستانی نظامِ تعلیم کو جدت کی سخت ضرورت ہے۔! ہر مکتب میں سائنس کی لبرٹی کا ہونا لازمی ہے۔! سائنس کے معاملے میں ہم بالکل گنوار ہیں۔! عالمی سطح پر بھی دنیا بھر میں ایک بھی ایسی مسلمان رصدگاہ نہیں جس کا کوئی معیار ہو! یہ ہمارے بقا کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔! سائنس اور سائنسی علوم لازمی قرار دئیے جائیں۔

    مگر اس میں مقام پیدا کرنے کے لیے ابتدائی جماعتوں ہی سے سائنس کے علم کو عام کرنا ہو گا۔! طلبہ کو ہینڈز آن سائنس سکھائی جائے نہ کہ کتابوں سے رٹے لگا کر۔

    ہم آئی ٹی کی فیلڈ میں بھی دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔! اس نئے نظام تعلیم میں آئی ٹی کی تعلیم ابتدائی جماعتوں سے دی جائے۔! پروگرامنگ سکھائی جائے۔ ڈیزائن، ڈی ویلپمنٹ سکھائی جائے۔! ڈیٹابیسس سکھائے جائیں۔ اور آئی کی پچیدگیوں میں ڈال کر بچوں کو چیلنج میں ڈالا جائے۔! انہیں مواقع فراہم کیے جائیں کہ وہ اس فیلڈ میں کچھ کر کے دکھائیں۔  آئی ٹی کنسٹلیشن قائم کیے جائیں اور دنیا کو پاکستان میں اس فیلڈ میں انوسٹ کی دعوت دی جائے۔

    [mks_separator style=”solid” height=”1″]

    اسپورٹس

    [mks_separator style=”solid” height=”1″]

    المکتب نظامِ تعلیم کا تیسرا اور آخری جز اسپورٹس پر مبنی ہونا چاہیے۔! اسپورٹس کو ایک خاص طور پر ایمپلیمنٹ کیا جائے۔! جہاں جہاں المکتب نظامِ تعلیم ہے وہاں وہاں ایک اسپورٹس کمپلیکس بھی بنایا جائے۔! آبادی اور علاقے کی مناسبت سے اس میں کھیلوں کو پروموٹ کیا جائے۔! بڑے شہروں کے اسپورٹس کمپلکس میں ہر طرح کی کھیل کا انتظام ہونا چاہیے۔! جھوٹے علاقوں میں خاص خاص کھیل جیسے کرکٹ، ہاکی اور فٹبال وغیرہ ہے اسکو پروموٹ کیا جائے۔! یہ ایک آئیڈیل انداز ہو گا پاکستان کے بچوں میں ٹٰلینٹ ابھارنے اور انکے جسموں کی نشو نما اور صحت کا۔

    اسپورٹس کا انداز یوں ہونا چاہیے! کہ المکتب جز 2 سے جو جماعتیں پہلی سے تیسری تک مکتب سے جلد فارغ ہو جائیں !انہیں پہلے اسپورٹس ھالوں میں کھیلنے کی جگہ دی جائے۔ مثال کے طور پر پہلی سے تیسری جماعت کی چھٹٰی 11 بجے ہو! تو وہ 2 بجے سے 4 بجے تک اسپورٹس ھال میں ہوں !– یہ بھی لازمی مضمون کی حیثیت سے ہو اور کسی کو استثنا نہ ہو۔

    پھر جب چوتھی سے چھٹی جماعت کو 1 بجے چھٹی ہو تو وہ 4 سے 6 بجے تک اسپورٹس ھال میں! ہوں اور پھر ساتویں سے دسویں جماعت تک کے طلبا 6 سے رات 8 بجے تک اسپورٹس ھال میں ہوں۔

    ان اسپورٹس ھال میں بھی اسپورٹس سے وابستہ ٹیچرز ہوں! جو ایک ایک بچے کی نشو و نما اور انکی اسپورٹس کارکردگی پر نظر رکھی جائے! اور وہی رپورٹ جو کنڈرگارٹن میں شروع کی جائے اسی پر اس بچے کی رپورٹنگ کو جاری رکھا جائے۔! اور وہ رپورٹ سرکاری ڈیٹابیس میں ہو۔

    المکتب نظامِ تعلیم کے تحت سارے ملک میں لیگ سسٹم قائم کیا جائے اور کھیلوں کے میدان میں مقابلے منعقد کیے جائیں۔

    یہ ایک انمول ذریعہ ہو گا کہ ہم پاکستان بھر سے اچھے سے اچھا ٹیلینٹ تلاش کر پائے گے۔

    اب ہر طالبعلم علم کے معاملے میں ایک سا نہیں ہو سکتا،! اسی طرح ہر کوئی اسپورٹس میں ایکسا نہیں ہو سکتا! – مگر ایک ایسا نظام جو بازیچۂ اطفال سے لیکر دسویں جماعت تک فالو کرے گا! اس میں دین اور دنیاوی علم کیساتھ ساتھ عمدہ ٹیلینٹ بھی مل سکے گا۔

    درجِ ذیل خاکہ المکتب نظامِ تعلیم کو پیش کر رہا ہے:

    [mks_separator style=”solid” height=”1″]

    انتظامیہ

    [mks_separator style=”solid” height=”1″]

    المکتب نظامِ تعلیم میں سال کا آغازچودہ اگست کے بعد جو پہلا اتوار آئے وہاں سے شروع ہونا چاہیے۔ بجائے اسکے جو آج ہے کہ اسکول سال کی ابتدا اپریل میں ہوتی ہے اور اسکے مہینہ ڈیڑھ بعد ہی لمبی چھٹیاں آ جاتی ہے۔ اس تسلسل کو توڑنے اور اسکول کے نظام کا ایک تسلسل برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔

    پہلی چھٹی اکتوبر کے آخری ہفتے میں ہو جو ایک ہفتے کی ہوں۔ دوسری چھٹی جنوری کے پہلے دو ہفتوں میں ہو جو سردی کی چھٹیاں کہلائیں۔

    اگلی چھٹیاں مارچ کے اس ہفتے میں ہوں جہاں 23 مارچ آئے اور پھر اسکے بعد المکتب نظامِ تعلیم کے اختتام پر گرمی کی چھٹیوں کی صورت میں ہوں جو جون کے پہلے ہفتے میں شروع ہو کر اگلے سال کی ابتدأ یعنی چودہ اگست کے بعد تک ہوں۔

    وہ انگنت چھٹیاں جو کبھی یومِ دفاع پر آ جاتی ہیں، اقبال ڈے پر آ جاتی ہیں، قائد ڈے پر آ جاتی ہیں یا اور اس طرح کی ان سب کو منسوخ کرنے کی ضرورت ہے! وہ چھٹیاں جنکا اوپر ذکر کیا گیا ہے انکے علاوہ عیدین کی چھٹی ہونی چاہیے وہ بھی صرف 3 دن!

    امتحانات کا طرزِ انداز بدلا جائے اور بجائے بنے بنائے اور رٹے رٹائے پیپرز کی جگہ طلبأ کو اس طرح پرکھا جائے:

    • ہر تین ماہ بعد طلبا کو ایک اہم پروجیکٹ بنانے کو دیا جائے جو اس تعلیم اور ان حالات پر مبنی ہو جن میں سے طلبا گزر رہے ہوں
    • ایک ایسا پروجیکٹ جس میں طلبا کو ریسرچ کرنا پڑے
    • اسکے علاوہ چھوٹے چھوٹے پروجیکٹ جو کسی خاص مضمون سے وابستہ ہوں، دئیے جائیں
    • ہر تین ماہ ان پروجیکٹس کو مدِنظر رکھتے ہوئے طلبا کو مارکس دیے جائیں
    • والدین کے ساتھ ہر تین ماہ بعد ایک میٹنگ رکھی جائے جس میں طلبا اور والدین کے ساتھ انکے کارکردگی کے مطابق بات چیت کی جائے
    • پھر سال کے اختتام پر ایک میجر پروجیکٹ دیا جائے
    • اس میجر پروجیکٹ میں سارے سال کی تعلیم کو یکجا کیا جائے، طلبا کی قابلیت کو پرکھا جائے اس میجر پروجیکٹ  اور سہ ماہی پروجیکٹ کو ملا کر سرکاری طور پر ہر طالبعلم کی ایک سالانہ رپورٹ تیار کی جائے اور اسکے مطابق طالبعلم کو مارکس دئیے جائیں، سالانہ مارکس طلبہ کے پاس یا فیل ہونے کی علامت ہوں
    • یہ میجر پروجیکٹ چیک کرنے کے لیے اسے دور دراز کے مکاتب میں بھیجا جائے، یعنی اپنے مکتب کے اساتذہ اپنے طلبہ کا پروجیکٹ چیک نہیں کر سکیں
    • سال کے اختتام پر ایک گرینڈ میٹنگ کی جائے جس میں اساتذہ فرداً فرداً طلبہ کے والدین کے ساتھ اس رپورٹ کو ڈسکس کریں 
    • موجودہ طرز کے امتحانات کو بالکل ختم کر دیا جائے!

    درجِ بالا انداز المکتب مدرسہ اور المکتب اسکول دونوں کے لیے ہو۔

    ہوم ورک کم سے کم بلکہ جہاں تک ممکن ہو ختم کر دیا جائے۔! اسکی جگہ المکتب نظامِ تعلیم ہی میں یہ انتظام کیا جائے کہ جن بچوں کو اضافی مدد کی ضرورت ہے! انہیں مدد فراہم کی جائے۔  بڑے بڑے بستے ختم کر دئیے جائیں اور صرف وہی کتب دی جائیں! جو ضرورت کے مطابق ہوں۔ جماعت کا شیڈول سال شروع ہونے سے پہلے ہی واضح کر دیا جانا چاہیے! تاکہ طلبا کو علم ہو کہ کس دن کونسا مضمون ہے اور اسکے مطابق کتب اٹھائی جائیں۔

    یہ نظامِ تعلیم سارے ملک میں یکساں ہونا چاہیے۔! سرکاری سرپرستی میں اساتذہ اور معلموں کو ہر سال اپ ڈیٹ کیا جائے۔! ان کی اپنی تربیت پر خاص خیال رکھا جائے اور انہیں نئے تعلیم سے بہرمند کیا جائے۔! جس طرح طلبہ کی رپورٹ تیار کی جائے ایسے ہی ہر مکتب کی انتظامیہ اساتذہ اور معلموں کی بھی !فرداً فرداً رپورٹ تیار کر  کے سرکار کے ڈیٹابیس میں جمع کرائے۔

    والدین کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اگر کسی استاد یا معلم سے نالاں ہیں تو اسکی شکایت کر سکیں۔! کسی بھی قسم کی سزا مکاتب سے قانوناً ختم کر دی جائے مگر استاد، معلم اور انتظامیہ کا احترام، سرکاری امارات کا خیال رکھنا طلبہ پر فرض کیا جائے! اور جو اس احترام کو قائم نہ رکھ پائیں انکے لیے اسپیشل تربیتی کیمپ لگایا جائے۔

    المکتب کے طلبہ کو سیر و سیاحت کے لیے ملک بھر کے علاقوں میں لے جایا جائے،! انکے لیے خاص تربیتی کیمپ قائم کیے جائیں جہاں پر انہیں حالات کے مطابق اپنے مدد آپ کے تحت سے جینا سکھایا جائے۔

    یہ نظامِ تعلیم کنڈرگارٹن سے لیکر دسویں جماعت تک ہونا چاہیے۔ اس سے طلبا کو ہائیر ایجوکیشن کے لیے تیار کیا جائے۔ ہائئر ایجوکیشن کے لیے بھی از سرِ نو انتظام کیا جائے۔

    پرائیویٹ اسکولوں کا نظام بھی اس وقت تک قابلِ قبول نہ سمجھا جائے جب تک وہ سرکار سے تصدیق شدہ نہ ہو۔

    علم کے معاملے میں ہم نے 70 سال سے لاپروائی برتی ہے۔! اب ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ جب تک ہمارا ایک ایک بچہ تعلیم سے بہرہ مند! نہیں ہوتا ہم دنیا کی فیلڈ میں بہت پیچھے رہ جائیں گے۔

    Education System for Pakistan, Pakistan Primary Secondary Education, Madrissah, Schools in Pakistan.

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    بقلم: مسعودؔ

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

  • Ma’lukiyat Ka Bandah!

    Ma’lukiyat Ka Bandah

    کرپشن کے کیسز میں پاکستان بھر میں دن بدن نئے نئے انکشافات سامنے آ رہے ہیں۔

    مگر اس میں جو سب سے بڑے اور اہم ترین کیسز ہیں! وہ پنجاب میں شریف خاندان اور سندھ بھی زرداری خاندان کا ہے۔

    دونوں ہی پاکستان میں حکومت کرنے والی پارٹیوں کے خاندان ہیں! اور پاکستان کے موجودہ حالات کی سب سے اہم وجہ یہی دو خاندان ہیں۔

    بے نظیر بھٹو ایک اعلیٰ سیاسی ظرف رکھنے والے! باپ کی ایک سیاستدان بیٹی تھی جو پاکستان کی عظیم ترین لیڈر بن سکتی تھی۔ Ma’lukiyat Ka Bandah

    مگر اس کو کرپٹ اور اسکے سیاسی ذہن کو مفلوج کرنے والا! اسکا شوہر آصف علی زرداری تھا۔ درحقیقت پیپلزپارٹی اسی دن اپنی سیاسی موت مر گئی تھی! جب زرداردی نے بے نظیر کو راستے سے ہٹا دیا! اور ایسے حالات میں اسے قتل کرا دیا! کہ جب وہ عوامی طاقت کا مظاہرہ کر رہی تھی۔ Ma’lukiyat Ka Bandah Ma’lukiyat Ka Bandah Ma’lukiyat Ka Bandah 

    طاقت کے اس مظاہرے ہی کا زرداری کو انتظار تھا۔

    یوں 2007 کے انتخابات جیتنے میں صرف اور صرف بے نظیر کی legacy متحرک تھی۔

    مگر وہ لیگاسی زرداری کے کرپشن کے اس کھیل کے لیے کافی تھی !جو اسکی سوچ میں پروان پا رھا تھا۔! زرداری اور نوازشریف بھائی بھائی! میثاقِ جمہوریت کے founding fathers نے پھر کرپشن اور منی لانڈرنگ ایک ایسا نیٹ ورک قائم کیا! جسے اگر پانامہ کا واقعہ نہ ہوتا، کبھی کوئی ظاہر نہیں کر سکتا تھا۔

    اب جب یہ راز در راز کھلتے چلے جا رہے ہیں،! عقل یہ تسلیم کرنے کو مانگتی ہے! کہ عمران کے الفاظ سو فیصد سچائی پر مبتی ہیں! کہ یہ دونوں یعنی زرداری اور شریف ایک دوسرے کا احتساب نہیں کر سکتے! کیونکہ دونوں کے جرائم ایک جیسے ہیں۔! دونوں ایک دوسرے کے جرائم سے واقت ہیں لہٰذا دونوں نے ایک دوسرے کو سمجھا دیا ہے! کہ تم بھی وہی کرو جو میں کرتا ہوں، نا تم مجھے احتساب کے کچہرے میں کھڑا کر سکتے! ہو نہ میں تمہیں: تم بھی لوٹو میں بھی لوٹتا ہوں!

    اپنے اپنے جرائم کو حفاظت دینے کے لیے ہم نے عدالتیں پال رکھی ہیں۔! رات کو تم فون کرنا اور من پسند فیصلہ لے لینا، میں تمہیں الزام نہیں دونگا،! یہی کام میں کرونگا۔

    رہی بات عوام کی تو عوام جہالت اور خودفراموشی کی انتہا پر ہے۔! انہیں ایک پلیٹ بریانی اور دو دو سو روپے تھما دیں گے! پھر دیکھنا انکا ہمارے لیے بھونکنا! وہی ہو رہا ہے! عوام کرپشن کے ملزموں کے لیے “جہاد” کر رہی ہے – اناللہ وانا الیہ راجعون!

    علم اللہ تعلیٰ کی جانب سے انسان پر فرض ہوا ہے! ہمارے نبی پاکﷺ پر سب سے پہلا حکم جو فرض ہوا تھا وہ تھا اقرا یعنی پڑھ!

    یہی علم ہے جو سندھیوں اور پنجابیوں سے اٹھا لیا گیا ہے! جب آپ کے ملک کے ڈھائی کڑوڑ بچے تعلیم سے محروم ہونگے تو آپ کے ملک کے حکمران زرداری اور شریفیوں جیسے ہی ہونگے۔

    جب جہالت ہو گی انصاف ناپید ہوگا۔ انصاف انکو ملتا ہے جو انصاف کا حق جانتے ہیں – حق تعلیم سے ملتا ہے جہالت سے نہیں!

    یہی وجہ ہے کہ شریفیوں اور زرداریوں نے انصاف کو حرامکاری سے اس قدر مفلوج کر دیا ہے! کہ وہ امیروں کے لیے بولتا ہے! وہ حرامخور ججز جو راتوں رات فیصلے بدلتے ہیں! اور وہ حرامخور ججز جو چھٹی کے دن خاص دیوان لگا !کر فیصلے دیتے ہوں وہ اس دنیا میں بھی مجرم ہیں آخرت میں بھی مجرم ہی ہونگے! – بھلے ماتھوں پر لاکھ محراب سجے ہوں!

    پاکستان کا دیوانی نظام بھی ایک مافیا ہے!

    ایک ایسا مافیا کہ آپ اسکے سامنے بکری لے جاؤ اور کہو یہ بکری ہے! تو وہ کہے گا کہ میں بھی دیکھ رھا ہوں! کہ یہ بکری ہے پر ثابت کیسے ہوگا کہ یہ بکری ہے!

    نادار اور ایسے لوگ جنکی اپروچ نہ ہو انسکے کیسز کئی کئی سال پڑے رہتے ہیں! یا پھر ان پر تاریخ در تاریخ ڈال کر پیسہ بنایا جاتا ہے۔! حرامکاری کا یہ عالم ہے کہ ججز اور وکلا اس میں برابر کے ملوث ہیں۔! یہ جو بھی حرام کھا رہے ہیں یہ کیوں نہیں سوچتے کہ! کل کو اللہ کے حضور جوابدھی کرنا ہو گی؟

    مگر شاید اسکے لیے بھی انہوں نے اپنے ضمیروں کو مطمئن کرنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے – ملا!

    ملا یہ فتویٰ جاری کرتے ہیں کہ نیب کا کرپشن کے ملزم کو ہتھ کڑی لگانا غیر شرعی ہے!

    تو جنابِ اعلیٰ آپ ہی بتائیں کہ کرپشن کے ملزم کو لیموسین میں بٹھا! کر عورتوں او سوری حوروں کے جھرمٹ میں بٹھا کر حوالات میں لایا جائے؟

    اور اگر کرپشن کے ملزم کو ہتھکڑی لگانا غیرشرعی ہے! تو عدالتوں کے جھوٹے اور غیرمنصفانہ فیصلے دینا عین اسلام ہے؟! یا چھٹی کے دن خاص الخواص عدالت لگا کر ایک کرپشن کے ملزمان کو خاص رعایت دینا ملاؤں کے اسلام کے عین مطابق ہے؟! لیکن ملا اس نظام میں ایسے رچ بس گئے ہیں کہ یہ کوئی نہ کوئی شرعی وجہ نکال لیتے ہیں!

    علامہ اقبال ملا سے شدید بیزار تھے – اب سمجھ آ رہا ہے کہ کیوں! ججز اور وکلا کی طرح ملا بھی ملوکیت کا بندہ ہے!

    Ma’lukiyat Ka Bandah!

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    NAB raid Hamza Shareef’s house, Pakistan Muslim League, Pakistan Peoples Party, Justice In Pakistan, Lahore High Court,

    بقلم: مسعودؔ

    Ma’lukiyat Ka Bandah!


    SC orders 500 Buildings in Karachi to raze