Welcome to WordPress. This is your first post. Edit or delete it, then start writing!
Blog
-
آج کا حسین!
میں مسلمانوں اور خاص کر دیسی مسلمانوں کے مزاج سے اچھی طرح واقف ہوں۔ یہ ہر اس بات سے کنارہ کش ہیں جو بات انکے مزاج کے خلاف ہے۔ یہ قرآن کی آیات بھی اپنی مرضی کے مطابق ڈھال کر ان سے استفادہ کرنے کے عادی ہیں۔ یوں 90 فیصد دیسی مسلمان اس بات پر جان و دل فدا کریں گے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے چار شادیوں کی اجازت دی ہے۔ یہ بات انکے مزاج کے عین مطابق ہے کیونکہ اس سے چار عورتوں کے ساتھ جسمانی تسکین حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ مگر اسی آیت کے ساتھ ہی منسلک دوسری آیت جس کو پڑھے، سوچے اور سمجھے بغیر پہلے والی آیت کا اطلاق ہوتا مشکل نظر آتا ہے اسے یک دم دیسی مسلمان درگزر کر دیتا ہے۔
اسی طرح میں سو فیصد یقین سے کہتا ہوں کہ میرا یہ مضمون بھی پڑھنا، سوچنا اور سمجھنا درکنار سمجھے گا۔
تلخ حقیقت یہ ہےکہ عجمی مسلمان نے واقعہ کربلا میں بہت شدید غلو کیا ہے۔ اور حقائق کا رخ بدل کر اسے ایک ایسی صورت دیدی ہے کہ پہلے یہ واقعہ صرف شعیوں تک محدود تھا، اب سنی بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے اور اسے دین کے ساتھ جوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں!
میرا یہ مضمون اس سانحہ، اس میں ہونے والے واقعات اور اسکے محرکات کے مطلق بالکل نہیں۔
بلکہ میرا یہ مضمون ان افرا د کے نام ہے جو اس سانحہ کو لیکرعزاداریوں کی محفلیں سجاتے ہیں، خودسوزی کرتے ہیں، جلسے جلوس نکالتے ہیں، یہ واقعہ لیکر اپنے آپ کو سلیس مسلمان ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں، ان ملاؤں کے نام ہے جو اس واقعہ کو لیکر اپنی اپنی دکانیں چمکائے بیٹھے ہیں۔ان مکروہ کردار سیاستدانوں کے نام ہے جو اس واقعہ پر کچھ رٹے رٹائے جملے بول کر خود معتبر ثابت کر رہے ہیں، ان میڈیا ہاؤسز کے نام ہے جو چوبیس چوبیس گھنٹے محرم کے نام کی نشریات پیش کر کے ریٹنگ بڑھانے کے چکروں میں ہیں۔۔۔
میں اس واقعۂ دلخروش، ظلم و بربریت اور جبرستم پر جتنی بھی مزمت کروں کم ہے، مگر میرا تم سب سے سوال ہے کہ کیا یہ واقعہ اسی طرح ہے جس طرح تم بیان کرتے ہو یا اس کے پیچھے محرکات کچھ اور ہیں؟
چلیں میں ایک لمحے کے لیے اس پر اتفاق کر ہی لیتا ہوں کہ یہ حق و باطل کی جنگ تھی، یہ عدل و انصاف کی جنگ تھی، یہ ایک ناحق حکومت کے خلاف حق کی راہ میں کیا ہوا جہاد تھا، تو آج عمران خان جو پچھلے دو سالوں سے ایک ناحق جیل کاٹ رہا ہے کیا یہ حق و باطل کی جنگ نہیں؟ کیا وہ اپنی ہوسِ حکومت کے لیے کال کوٹھڑی میں پڑا ہوا ہے؟ کیا وہ ایک باطل، جھوٹی اور کذابی طاقت کے خلاف جنگ نہیں کر رہا؟
پاکستان کی تاریخ کے سب سے غدار ترین فوجیوں نے اس کی جائز حکومت پر شب خون مار کر اسے معزول ہی نہیں کیا بلکہ اسکی جگہ حکومت ان کو تھما دی جو اس کائنات کے بد ترین مجرم ہیں! اپنے آپ کو معتبر ثابت کرنے کے کے ان غداروں نے انسانیت کا قتل کیا، ملک کے حالات کو ابتر کیا، عورتوں کی عصمتوں کو پامال کیا، خفیہ کیمرے لگا کر انسانیت کا سر جھکا دیا ، ضمیروں کے سودے کیے، حرام کھایا اور اوروں کو کھلایا، بدترین جھوٹ اور مکر و فریب کا کھیل کھیلا۔۔
یہ سب دیکھ کر بھی تمہارے کانوں پر سے جوں تک نہیں رینگتی بلکہ تم مکمل طور پر غفلت کی نیند سو رہے ہو ایسے جیسے تمہارے اوپر کوئی فرائض لاگو نہیں ہوتے۔ اور تم فقط محرم کے دنوں میں خود کو مار پیٹ کر، خود سوزیاں کر کے، ٹی وی جام کر کے ، سڑکوں کو بلاک کر ہر طرح کی خرافات کو اپنا کر اپنے آپ کو مسلمان اور حسین کا ہمدرد ثابت کرنے کے ڈرامے کر رہے ہو؟ جبکہ آج کا حسین جیل میں پڑا دیکھ رہا ہے کہ تم جیسے نام نہاد مسلمانوں کو کب ہوش آتا ہے؟ مگر نہیں مسلمانوں کی آنکھوں پر، کانوں پر، دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے – ایسی مہر کہ اب تم صرف جھوٹی آن و شان دکھانے کے سوا مکمل طور پر ناکارہ ہو چکے ہو، تمہارے ہاتھوں کو قدرت نے ناکارہ کر دیا ہے اور تمہارے دلوں میں الحاد بھر دیا ہے۔ تم قرآن بھی اپنی مرضی کا سمجھتے ہو اور فرائض کوبھی۔ مار، پیٹ ، جلسے جلوس نکالنا، ریلیاں نکالنا،فرضی نعلین کو ماتھوں پر سجا لینا، بے بس اور مجبور انسانیت کو اپنی جاہلانہ پیری مریدی میں قید کرنا، میلادیں منانا،ٹی ویوں پر آ کر اسلام پر طرح طرح کے لیکچر دے دینا،جابر حکمران کے کہنے پر فسادات کرانا، ایک دوسرے کو گالی گلوچ کر کے اپنے ضمیروں کو مطمئن کر لینا یہی تمہارا اسلام ہے۔
اگر حسین نے باطل کے خلاف جہاد کیا ہے تو عمران خان بھی باطل کے خلاف جہاد کر رہا ہے، حسین کے ساتھ بھی چند لوگ تھے، عمران کے ساتھ بھی چند ہی لوگ ہیں – باقی سب کے سب منافق!!
تم لوگ اپنے اپنے بے بنیاد، فرضی اور لاحاصل چونچلوں میں لگے رہو، مگر خدائے بزرگ و برتر کی قسم تم جوبھی کرتے ہو نہ ہی تو وہ اسلام ہے، نہ اسلام سے وابستہ کوئی عمل ہے اور نہ ہی عقیدت – بلکہ یہ بدترین جہالت ہے جس میں تم وقت کے ساتھ ساتھ بد ترین کھائی میں گرتے چلے جا رہے ہو!
اسلام کیا ہے؟ حق کے ساتھ کھڑے ہو جانا چاہے اس میں جان تک چلی جائے: آج کا حق عمران خان ہے! حسین نہیں! اور تم منافق ہو مسلمان نہیں!
عاصم منیر پاکستان کا غدار ہے!
اس کا مسلط کردہ ہر حکومتی مہرہ پاکستان کا غدار ہے!
اسکے حق میں فتوے لگانے والے ملا پاکستان کے غدار ہیں!۔۔۔۔۔۔ اور تم؟ تماشائی!
بقلم: مسعود
-
نطقِ خودشناسی
پیدا تجھ میں نہیں ہے نطقِ خودشناسی
فطرت تیری ہے غلامی ، سوچ باسی
تعمیرِ کائنات میں تیرا عمل بے عمل
تربیت اخلاق کی موت، عملاً سنیاسی
ملا تیرے ستیزہ کار و فتنہ گر سارے
راہبر ناعاقبت اندیش و غیر سیاسی
ملک و قوم پر چھایا ہے سامری جادوگر
جس کے سحر نے کر دیا ہر امر عاصی
مسعؔود کون ہے قدر و عزت میں بڑا؟
ملک کےحکمران یااسٹیج کے میراثی!
Pegham Network
-
سستی روٹی سستا وقار
موجودہ حکومت کی اوقات: سستی روٹی سستا وقار
بے سہارا، مجبور، بے کس، بے بس، غریب غربا، مسکینوں اور معاشرے کے تھکے ہاروں کے لیے بنائے گئے لنگر خانوں کو بند کر کے روٹی 4 روپے سستی کر کے شہرت اور واہ واہ کمانے والوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو!
یہ وہ طبقہ ہے جسے پاکستان کی عوام پر اللہ تعالی کے عذاب کی صورت میں نازل کیا گیا ہے مگر عوام کو اسکا اندازہ نہیں! یہ لوگ سیاستدان نہیں بلکہ انکو سیاست دان منوانے والے وہ کتے اور کتیاں ہیں جو دن رات انکے دئیے ہو ئے حرام پر پلتے ہیں اور دن رات انکی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں۔
عوام نے جن کو انتخابات میں مسترد کر دیا اور جنہیں شکستِ فاش ہوئی، پاکستانی فوج نے ان سترہ سیٹوں والوں کو حکومت دے پاکستان کے آئین کیساتھ زنا کیا ہے!
فوج پاکستان کی ریاست کو نہیں مانتی! اسکا اندازہ اس وقت ہوا جب بہاولنگر میں پولیس کے ایک تھانے نے ایک فوجی کے گھر دھاوا بولا جسکے جواب میں فوج نے تھانے پر ہی دھاوا بول دیا اور ایک ایک آفیسر کو ذلت اور رسوائی کی مثال بنا دیا۔ ریاست کے کسی بھی ادارے پر کسی کا بھی حملہ غداری کے مترادف ہوتا ہے مگر پاکستان میں فوج ہی ریاست ہے، فوج ہی آئین ہے، فوج ہی حکومت ہے، فوج ہی پارلیمنٹ ہے، فوج ہی قانون ہے، فوج ہی قانون پر عمل درآمد کرانے والے ہیں لہذا فوج ہی اس بات کو متعین کرے گی ریاست کیا ہے اور قانون و قاعدہ کیا ہے!
Pak Army Attack Police Station in Bahawalnagar پاکستان درحقیقت مکمل ANARCHY کا شکا رہے ! فوج ریاست کو اپنے بوٹ کی نوک پر رکھتی ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ فوج کے سوا اس ریاست کو کوئی نہیں چلا سکتا! سریعاً غداری! مگر کسی میں اتنی جرأت نہیں ہ فوج کی پالیسیوں پر انگلی اٹھا سکے۔ جس میں جرأت تھی اسے جیل میں بند کر کے اسکی پارٹی جو ایک واحد سیاسی قوت تھی اسے تہس نہس کر دیا ہے کہ کوئی فوج کے مقابلے میں نہ آئے۔ اور جو بھی فوج کی پالیسیوں پر آواز اٹھائے اسے قتل کر دیاجائے، اسکو اغوا کر لیا جائے، اسکی فیملیز کی عورتوں کی عزت اچھالی جائے، انکے گھر میں خفیہ کیمرے لگا کر انکی عزت رسوا کی جائے: فوج کچھ بھی کر سکتی ہے!
اور یہ وہی پورن فلمیں ہیں جو ایک مکروہ ، پرلے درجے کی جاھل اور شو آف عورت کو دیکر اسے سیاستدان بنا دیا گیا ہے۔ وہ عورت جس کو عدالتِ عظمیٰ نے کہا تھا کہ بی بی تم نے یہ کیا کر دیا کہ تم نے عدالت میں جعلی پیپرز جمع کرائے، وہ عورت آج حکمران بنا دی گئی ہے۔
فوج نے ان لوگوں کو حکومت میں لگا دیا ہے کہ جن میں جرأت نہیں کہ فوج سے پوچھیں کہ اس نے کس قانون کے تحت سرکاری ادارے پر دھاوا بولا؟ نہیں یہ وہ حکمران ہیں جن کی چالیس پچاس سالہ سیاست پر عوام نے عام انتخابات میں تھوک دیا ، جو سیاست کے میدان میں شدید شکست خوردہ ہیں، جنکا سیاسی وقار گندی نالے کے کیڑوں سا رہ گیا ہے اورجنہیں دنیا بھر میں کرپشن اور فراڈ کی مثالیں بنا کر تعلیم دی جاتی ہے انہیں فوج نے پاکستان پر حکمران مسلط کر دیا!!! عالم دنیا میں پاکستان کا کیا وقار ہے گیا ہے؟
وقار کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ اس وقت پاکستانی پاسپورٹ دنیا کے 4 ذلیل ترین پاسپورٹ میں ہوتا ہے۔ جس ملک پر نون گینگ اور زرداری گینگ کو حکمران مسلط کیا جائے اس ملک کا کیا وقار ہو گا؟
اوپر سے پرچیوں سے سیاستدان بھرتے ہونے والوں نے اس قوم کر دماغ ماؤف کر کے رکھ دیا ہے۔ جب بلاول جو سیاستدانوں کی ایک مسکین سی کھسری سے زیادہ اوقات نہیں رکھتا عوام کو کہے کہ بھٹو قبر میں زندہ ہے اور حکومتیں توڑنے جوڑنے کا کام کر رہا ہے۔ کسی جاھل تخم کی پیداوار بھٹو اپنے تمام کر کرتوتوں کیساتھ مر کھپ چکا ہے اور وہ بھی اپنے کرتوتوں کا جواب دینے کا منتظر ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے تم لوگوں کو اپنے اپنے کالے دھندوں کا جواب دینا ہے۔ تم لوگ سیاستدان نہیں بلکے نسل در نسل بدمعاشوں کے گدی نشین ہو! سیاست تمہارے بس کی بات نہیں! تم لوگ فوج کی چوسنی چوسو اور حکومت کے مزے لوٹو! عوام میں گئے تو عوام تمہارارہا سہا نام بھی بے نام کر دے گی۔
ریاست پاکستان مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ جو کچھ ہے وہ فوج ہے۔ فوج ہی ریاست ہے اور فوج ہے اس ریاست کا ہر ادارہ۔ جبکہ ادھر ہندوستان میں خبریں سرگرم ہیں کہ پاکستان میں آج بھی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے جو ہندوستان کی خفیہ ایجنسیاں کرارہی ہیں جبکہ پاکستان کی خفیہ ایجنیسیوں کا کام ججز کے گھروں میں خفیہ کیمرے لگا کر ان کی اپنی عورتوں سے مباشرت کی فلمیں بنا کر انہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا ہے۔ اپنی ریاست کی عورتوں کو ننگا کرنا ہے !
صرف پانچ سال کے قلیل عرصے میں 30 لاکھ پاکستانی اپنا ملک چھوڑ کر بیرونِ ممالک میں اپنے اور اپنی اولادوں کے بہتر مستقبل کے لیے دھکے کھانے نکل گیا ہے۔ صرف عام پاکسستانی ہی نہیں بلکہ اس ملک کے 161 ریٹائڑڈ فوجی جرنیل اپنی اپنی ڈیوٹیوں کی مدت پوری ہو جانے کے بعد اس ملک سے نکل گئے ہیں۔ ایک عام پاکستان کا ملک چھوڑنے کی وجہ سمجھ آتی ہے مگر ایک جرنل؟؟؟؟ فوجی جرنیل ریٹائر ہونے کے بعد یا تو سرکاری عہدوں پر لگا دیے جاتے ہیں یا ملک چھوڑ جاتے ہیں۔ کیا یہ کسی لعنت سے کم ہے؟فوج اور نون گینگ اور زرداری گینگ کے سربراہاں درحقیقت بھائی بھائی ہیں: آج انہیں حکومت سے نکال دو رات سے پہلے شریفیی اور زرداری یہ ملک نہ چھوڑ جائیں تو کہیے گا!!!! پاکستان ایک مکمل طور پر ناکام ریاست ہے اور اسکی ناکامی کی وجہ یہ تین خنزیر ہیں!!!!
بقلم: مسعود
-
حزب اللہ
ناموسِ وطن و دیں بیچ رہا ہے مسلم سالار
نیام میں زنگ آلودہ ہو گئی اتحاد کی تلوار
پکارتا ہی رہ گیا کشمیروفسلطین کا لہو!
راہبرانِ امت رہے مغربی ناخداؤں کے یار!
امت کو درپیش ہے نیا معرکۂ فرعون!
نسلِ فرعون ہے قوم پر مسلط برقرار!
معجزۂ قرآن کو سمجھا تو فقط کفار ہی سمجھا
حافظ و ملا و قاضی دین کے منافق و بدکردار!
واجب امت پہ ہو چکا ہے نعرۂ حزب اللہ!
ذلت کی زندگی سے بہتر خودداری کا وار!
Pegham Network -
پاکستانی سیاست کا کھیل تماشا
2024 کے الیکشن پاکستانی سیاست کا کھیل تماشا سے بڑھ کر کوئی اوقات نہیں رکھتے۔ اس کھیل تماشے سے پہلے جو سین ہوئے ان پر ایک نظر۔۔۔
سین1
”تم روس نہیں جاؤ گے!”
”تم ہم پر حکم نہیں چلا سکتے، ہم ایک آزاد قوم ، آزاد ملک اور آزاد جمہوریت ہیں، ہم اپنے فیصلے اب خود کریں گے! تم اپنے فیصلے ہم پر مسلط نہیں کر سکتے!”
”تم روس نہیں جاؤ گے! اور ہماری (مغربی) نظروں میں اچھا بننے کے لیے DO MORE پر عمل کرو گے!”
”میں تمہارا حکم مانوں؟ ”Absolutely Not
سین2
امریکہ کو Absolutely Not کہنے والا وزیر اعظم پاکستان عمران خان فروری 2022 میں روس کے 3 روزہ دورے پر ماسکو پہنچا۔ اسی دن ماسکو نے یوکرائین پر حملہ کر دیا جو تاحال فروری 2024 تک جاری ہے!
اس دورے کے بہت سارے اہم مقاصد تھے جن میں روس اور پاکستان کے درمیان جو کشیدگی پچھلی کئی دہائیوں سے چلی آ رہی تھی اسکو دور کرنا تھا۔ جبکہ اسکے ساتھ ساتھ روس کیساتھ سستی اور معیاری توانائی جس میں تیل اور گیس اہم تھیں انکی رسائی کو یقینی بنانا تھا تاکہ پاکستان نے پچھلی کئی دہائیوں سے عربوں کیساتھ جو مہنگے معاہدے کر رکھےہیں ان سے نجات دلائی جا سکے۔
مگر ایک ایسا منصوبہ جسے بہت کم لوگ جانتے اور بہت کم صحافیوں نے بیان کیا ہےوہ یہ ہےکہ روس پاکستان کو اس اہم ترین منصوبے میں شامل کرنا چاہتا ہے جسے BRICS کے نام سے جانا جاتا ہے۔ برکس بظاہر تو کاروباری سطح پر روس، برازیل، انڈیا، چائینا اور ساؤتھ افریقہ کے درمیان ایک تجارتی معاہدہ ہے اور جس میں بہت سارے ممالک شامل ہو رہے ہیں مگر پسِ پردہ برکس نیٹو کے طرز کا ایک ایک عسکری اتحاد پیدا کرنا ہے کہ جو ممالک برکس میں شامل ہوں ، اگر ان میں سے کسی پر حملہ ہوتو تمام برکس ممالک مل کر اسکا دفاع کریں! روسی صدر پوٹن کے نذدیک عمران خان ایک اعلیٰ سطح کا قابل انسان ہے اور وہ پاکستان کے لیے ایسے فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو اس سے پہلے کسی کے بس کی بات نہیں تھے!
سین 3
ادھرامریکہ میں عمران خان کے اس دورے کوشدید ترین ناراضگی سے دیکھا گیا۔ ایک ٹاسک فورس بنائی گئی جسے ایک اہم مشن دیا گیا!
ساتھ ہی لندن میں پاکستان کے ایک بہت بڑے مجرم جو پاکستان اور پاکستانی قانون سے مفرور بیٹھا ہوا ہےاسے متحرک کیا گیاوہ اپنی پاکستان جانے کی تیاری شروع کر دے۔
سین 4
پاکستان کی فوج دنیا کی ساتویں بڑی ، مضبوط ترین اور دہشتناک ترین فوج قرار دی جاتی ہے۔ اس فوج کا سربراہ پاکستان کا سب سے پاوورفل انسان ہوتا ہے۔ پاکستان کی ایک ایک رگ اس ایک انسان کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اکتوبر 2022 کو پاکستان کی اس فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو امریکہ مدعو کیا جاتا ہے۔ ایک سرکاری دورہ جس کا بظاہر مقصد مغربی ممالک کے ساتھ پاکستان کی خارجی پالیسی کو بہتر بنانا ہے مگر پسِ پردہ اس دورے کا مقصد اس مشن سے آگاہی ہے جس کا ذکر سین 3 میں کیا گیا ہے۔ مشن یہ تھا کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو بطور وزیر اعظم رد کر تی ہے اور اسے جلد از جلد حکومت سے برخاست کر کے اسے ایک ایسی خوفناک مثال بناناچاہتی ہے جیسے 1976 کو امریکی سیکرٹری وزیرِ دفاع ہنری کسنجر نے بھٹو کو بنانے کی دھمکی میں دی تھی۔ بھٹو کو فوج کے ہاتھوں قتل کروا کے وہ خوفناک مثال قائم کی گئی تھی!
سین 5
دو مارچ 2022 کو امریکی وزیرسیکٹریری برائے وسطی اور جنوبی ایشیائی ممالک ڈونلڈ لو نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم عمران خان کی نسبت لائحہ عمل مرتب کر رہے ہیں۔ سات مارچ کو پاکستانی وزیر برائے امریکہ کو امریکہ ہیڈ کواٹر بلایا جاتا ہے اور اسے اس خاص مشن کی تکمیل کی تیاری کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس ملاقات کے بعد ایک سائفر مرتب دیا جاتا ہے جو پاکستان کی ملٹری کو موصول ہوتا۔
سین6
ملٹری کے نامعلوم افراد نے پی ٹی آئی کے پچاس کے قریب ایم پیز کو کڑوڑوں روپے دیکر انکا ضمیر خریدکر زرداری گروہ کیساتھ جا ملایا اورانہیں عمران خان کے خلاف کر دیا۔ یوں پارلیمنٹ میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک چلوا کرفوج نے اسکی جائز حکومت کا غدار ی کیساتھ تختہ الٹ دیا۔ نومبر 2022 کو قمرجاوید باجوہ اپنی ڈیوٹی کی مہلت ختم کر کے ریٹائرڈ ہوا ۔ جاتے ہوئے اپنی زبان سے یہ کہہ کر گیا کہ ہمیں انہیں (عمران حکومت کو) ہٹانا پڑا ورنہ وہ پاکستان کی سالمیت کے لیے خطرہ بن چکے تھے۔
سین7
پاکستان بھر میں اس غداری کو بھانپتے ہوئے عوامی شور شرابا ہونے کا خطرہ محسوس ہونے لگا۔ مگر اس سے نبٹنے کے لیے عمران خان کے اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کی قائم مقام حکومت جسکی اصل بھاگ دوڑ مریم صفدر کے ہاتھ میں تھی ، مکمل منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ اس منصوبے کی مکمل منظوری فوج کی جانب سے دی جا چکی تھی۔
سین 8
سن ستر میں جب مجیب الرحمن نے پاکستان کے پہلے آزاد الیکشن میں زبردست کامیابی حاصل کی اور فوجی جرنیلوں کو محسوس ہوا کہ وہ انکے لیے خطرہ بن گیا ہے، تو فوج نے مجیب الرحمن کی عوامی طاقت کو توڑنے کے لیے اس کے ایم پیز پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ ڈالے، ان کو انکی فیملیوں پر بد ترین ذہنی و جسمانی ٹارچر کیا۔ جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک بہت بڑی تعداد میں ایم پیز عوامی لیگ پارٹی سے الگ ہو کر دوسری پارٹیوں میں چلے گئے۔
سین9
سات مارچ کے سائفر کے بعد جب عمران خان کی حکومت گرائی گئی تو ساتھ سے پی ٹی آئی کے ایم پیز کیساتھ ہو بہو وہی سلوک ہونے لگا جو عوامی لیگ کے ایم پیز کے ساتھ ہو چکا تھا۔ تاریخ ایک بار پھر سے خود کو دہرا رہی تھی۔ عورتوں کی ہتک کی گئی، انہیں ننگا کرنے کی دھمکیاں دی گئی۔ مردوں کو انکی آنکھوں کے سامنے انکی عورتوں کو بے آبرو کرنے کی دھمکیاں دی گئی۔ کئی کو کڑوڑوں روپے دیکر انکا ضمیر خریدا گیا۔یوں پی ٹی آئی کو منتشر کیا جانے لگا۔
سین 10
9 مئی !
پاکستان کی بھیانک اور کالی سیاسی تاریخ میں ایک اور المناک باب رقم ہوا۔ ایک بہت بڑے پیمانے پر منظم اور گائیڈڈ دہشتگردی کرائی گئی جس میں خاص طور پر سرکاری اور فوجی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ دہشگردی اس قدر منظم اور منصوبہ بندی سے کی گئی کہ اسکا سارا ملبہ پی ٹی آی پر آن پڑا۔ جبکہ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ فوجی گاڑیوں میں دہشتگرد بھرکر لائے گئے جنہوں نے دہشتگردی کی اور فوجی جوانوں کے پہروں میں سرکاری ڈنڈوں سے دہشتگردی کی گئی۔ یہ دہشتگردی اس امریکہ مشن کا ایک اہم حصہ ثابت ہوئی جسکا ذکر سین نمبر تین میں کیا گیا ہے۔
اس کا اثر یہ ہوا کہ سرکاری اداروں کے پاس وہ ثبوت آ گیا جس پر وہ پی ٹی آئی اور اسکی قیادت پر ہاتھ ڈال سکیں۔ بظاہر یہ قدم پی ٹی آئی کے سر تھوپ دیا گیا جبکہ ہماری اطلاعات اور ہماری سورس کے مطابق درحقیقت یہ پلان مریم صفدر، رانا ثنااللہ ، راتوں رات مسلط کیے جانے والے وزیراعلیٰ پنجاب ، ڈی آئی جی پنجاب اور کچھ فوجی افسران کا بنایا ہوا تھا، جسے فوج کی مکمل حمایت اور اشیر باد حاصل تھی اور ہم یہ کہنے کے حق بجانب ہیں کہ اسکا حکم امریکہ سے آیا تھا۔
سین 11
عمران خان اور اسکے اہم ترین ساتھی جنہوں نے ابھی تک اسکا ساتھ نہیں چھوڑا تھا ان سب کو کالے قانون کے تحت گرفتار کر کے طرح طرح کے کیسز انکے سر تھوپے جانے لگے۔ باقیوں سے جبراً اور بندوق کی نوک پرحلفیہ بیان لیے جانے لگے کہ 9 مئی کے واقعات کا حکم عمران خان نے خود دیا ہے۔اگر کوئی بیان دینے سے انکار کرتا نامعلوم افراد سے انکی فیملیوں خاص کر عورتوں کی ہتک اور بے آبرو کرنے کی دھمکیاں دی جاتی۔ اس قدر اندھیر نگری شاید سن ستر میں بھی نہیں ہوئی ہو گی ! اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ عمران خان نوازشریف کی طرح ڈیل کر کے ملک سے فرار ہو جائے گا۔ مگر عمران خان اپنے ارادوں کی پختگی کیساتھ جما رہا اور جب اسکے خلاف کوئی بات ثابت نہ کر پائے تو ایک جھوٹے کیس میں نااہل اور 10 سال کی جیل سنا دی جس سے شاید ہی پاکستانی حکومتوں سے وابستہ کوئی شخص مبرا ہو گا۔ توشہ خانے کی ایک گھڑی!!!! لیکن چونکہ حکم امریکہ کا تھا اسے پورا کرنا فرض تھا!
سین 12
جو بھی سیاسی کارکن جو ابھی تک پی ٹی آئی سے وابستہ تھا وہ دہشتگردی کی ایکٹ میں آنے لگا۔ جبکہ جیسے ہی وہ کارکن پی ٹی آئی چھوڑنے کے حلف نامے پر دستخط کرتا اور دوسری سیاسی پارٹیوں میں چلا جاتا وہ نیک پارسا اور پوتر ہو جاتا۔ اسے اپنا سیاسی کیرئیر جاری رکھنے کی اجازت دی جاتی۔ یوں انگنت پی ٹی آئی کے اہم ترین رکن اس دباؤ تلے آ کر اپنی عزتوں کو بچاتے ہوئے دوسری جماعتوں میں چلے گئے یا سیاست سے کنارہ کش ہو گئے اور پی ٹی آئی منتشر ہو نے لگی۔
سین 13
شہبازشریف کی قیادت میں ایک کٹھ پتلی حکومت بنا کر فوج نے نئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کی قیادت میں ملک کی بھاگ دوڑ سنبھال لی۔ شہبازشریف بحثیت وزیر اعظم گندی نالے کے کیڑے کی طرح ہے جسکی کوئی اوقات نہیں ۔ جسے کسی قسم کا کوئی بھی فیصلے لینے کی اجازت نہیں ۔ فوج جو چاہتی وہی ہوتا ۔ کسی قسم کا کوئی بھی آئین ملک میں لاگو نہیں ، کیونکہ فوج کبھی کسی آئین کو مانتی ہی نہیں ۔ قانون انسانی کائنات کے غلیظ ترین عمل کا نام بن چکا ہے۔ قانون صرف اس پر نافذ ہے جسکی کوئی بھی ہمدردی پی ٹی آئی کیساتھ ہوتی۔ شاید ہی کسی ملک کی تاریخ میں سے لاقانونیت کی ایسی کوئی مثال دی جا سکتی ہو، جیسی لاقانونیت پاکستان میں ہے۔ پاکستانی آئین کے مطابق اگر کوئی جمہوری حکومت برخاست کی جاتی ہے تو نو ے دن کے اندر اندر الیکش کرانا لازمی ہے۔ مگر جب فوج ہی ملک چلا رہی تھی اور جب فوج کسی آئین کو مانتی ہی نہیں تو الیکشن کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔
درحقیت الیکشن سے پہلے پہلے کچھ اہم کام باقی تھے، جس میں پاکستان کے سب سے بڑے مجرم نوازشریف کو پاکستان واپس لانااور اسے تمام تر جرائم سے پاک اور پوتر قرار دیناہے۔ اس پر جو بھی الزامات تھے وہ سب سے سب راتوں رات دھو نا اور اسے پاکستان کا نیک ترین انسان کا خطاب دینے کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کی آخری سانسیں تک ختم کرنا، اسکے ایک ایک ٹکٹ ہولڈرز کو پارٹی کے بینر پر الیکشن نہ لڑانا، عمران خان کو مکمل طور پر راستے سے ہٹانا ابھی باقی تھا۔
سین 14
پاکستان الیکشن کمیشن کی تاریخ کوئی نیکی یا پارسائی اور وطن پرستی کی تاریخ نہیں۔ یہ ادارہ ایک بہت گندی اور غلیظ طوائف کا کردار ادا کرتا آیا ہے۔ پی ٹی آئی سے اسکے اہم ترین نشان بلا بھی چھین لیا کہ کوئی بھی ٹکٹ ہولڈر بلے کے نشان پر الیکشن نہٰیں لڑ سکتا۔ ہر ممبر ایک آزاد ممبر کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے اور اسکا اپنا نشان ہو!
یعنی پاکستان کی تاریخ کی سب سے خنزیر اور بدکار چال چلی گئی۔ عوام کو عمران خان سے متنفر کرنے کے لیے الیکشن سے کوئی چودہ دن پہلے 10 سال کی سزا سنا دی۔ یہ سزا دو جرموں میں سنائی گئی۔ اول تو یہ کہ عمران خان نے پاکستان کے سرکاری راز فاش کیا، دوسرا یہ کہ اس نے ایک مطلقعہ عورت سے دورانِ عدت نکاح کیا!
پہلا جرم وہ سائفر کا سرِ عام ذکر تھا جس پر عمران خان نے عوامی سطح پر اس وقت دکھا کر سوال کیا کہ ایک غیر ملکی طاقت (امریکہ) ہمارے اندرونی معاملات میں دخل کیوں دے رہا ہے اور جسکی وجہ سے ایک جمہوری حکومت کا تختہ آرمی کے جرنل باجوہ نے الٹا؟ یہاں پر یہ بات بہت ہی اہم ہے کہ فوج اس بات سے انکار کرتی چلی آئی ہے کہ کسی قسم کا کوئی سائفر آیا ہی نہیں اور اسکا کوئی وجود نہیں!!!! پھر یہ بھی کہا گیا کہ سائفر آیا ہے مگر اس میں حکومت الٹنے کی بات نہیں۔ یعنی ہر حال میں اگر کوئی قابلِ پھانسی بنتا ہے تو وہ اس وقت کا چیف آف آرمی اسٹاف جرنل باجوہ بنتا ہے مگر سزا عمران خان کو دی گئی!
دوسرے جرم کی نسبت حقیقت یہ ہے کہ یہ دینی سطح کا ایک انتہائی مضحکہ خیز اور جھوٹ پر مبنی کیس بنایا گیا ہے۔ ایسا کیس جسکا کسی قسم کا کوئی وجود نہیں!
سین 15
8 فروری 2024 الیکشن ڈے!
کوئی بیس ماہ کی غیر آئینی و غیر قانونی حکومت نے فوج کی نگرانی میں ہر ممکنہ ادرے کی مدد سے ہر وہ غلیظ اور بدکار کھیل کھیلتے ہوئے بالآخر الیکشن کا اعلان کر دیا! یاد رکھیے اب تک پی ٹی آئی کے خلاف:
- پارٹی لیڈر عمران خان کو جھوٹی سزا دلوائی
- عمران خان پر قاتلانہ حملہ کرایا، جس میں وہ بچ گیا
- پارٹی کے اہم ترین رکنوں کو جیل میں بے جا ہوس میں رکھا
- دوسرے کئی اہم رکنوں کا ضمیر خرید کر انہیں پارٹی سے الگ کر دیا
- بلے کا انتخابی نشان چھین لیا
- کسی قسم کی الیکشن کمپئین پر پابندی عائد کر دی
- تمام تر ٹکٹ ہولڈرز پارٹی کے لوگو پر الیکشن نہیں لڑ سکتے
- تمام ٹکٹ ہولڈرز کو الگ الگ انتخابی نشان دے کر آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنے پر مجبو کر دیا
- آخر لمحات تک کئی ٹکٹ ہولڈرز کو ہراساں کیا جاتا رہا، کبھی انکے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دئیے رہے، کبھی انہیں ذہنی و جسمانی طور پر حراساں کیا جاتا رہا
- بعض حلقوں میں امیدواروں کو الیکشن سے پہلے پیسہ دیکر خرید لیا جاتا
- پی ٹی آئی رکن ریحان زیب خان کو الیکشن والے دن قتل کر دیا گیا
ان کے علاوہ:
- روز بروز انٹرنیٹ سروس بند کر دی جاتی اور خاص کر الیکشن والے دن
- کئی ایک حلقوں میں فائرنگ ریکارڈ کی گئی
ان باتوں سے الیکشن کروانے والے کیا چاہتے تھے؟ پاکستان کی اکثر آبادی انپڑھ اور گنوار ہے۔ وہ نسل در نسل کچھ جانے پہچانے لوگوں کے جانے پہچانے نشانوں کو ووٹ دینے کی عادی ہیں۔ پی ٹی آئی کا لوگو بلا ایک ایسی علامت تھی جس پر عوام “عمران خان سمجھ کر” مہر لگایا کرتے تھے۔ جب یہ بلا ہی نہیں ہو گا، پئ ٹی آئی کا نام ہی نہیں ہو گا تو عوام پریشان ہو کر ان نشانوں پر ٹھپہ لگا دے گی جنہیں وہ جانتی ہے جیسا کہ شیر، تیر اور کتاب وغیرہ۔
8 فروری 2024 کو پاکستانی عوام نے وہ کھیل کھیلا جو نہ فوج کی توقع کے مطابق تھا، نہ شریفیوں، نہ زرداریوں اور نہ ہی انکے مغربی آقاؤں کی! پاکستانی عوام نے بیلٹ پیپر پر سے ان افراد کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مہریں لگائیں جنہیں بالکل نئے اور اجنبی انتخابی نشانات دئیے گئے تھے اور انکا تعلق پی ٹی آئی سے تھا۔
یوں رات کے پہلے پہلے نتائج کے مطابق پی ٹی آئی زبردست کامیابی سے جیت رہی تھی۔یہاں تک کہ نوازشریف تک اپنے حلقے سے بری طرح ہار رہا تھا۔ پھر وہی ہوا جو پاکستان میں ہمیشہ ہوتا ہے: رات گئے روشنیاں گل کر دی گئی، کمپیوٹرز بند کر دئیے گے اور نتائج آنا بند ہو گئے۔ یہاں تک کہ دوسری صبح کاسورج طپش پھیلانے لگا۔ یکایک نتائج بھی آنا شروع ہو گئے اور غیر یقینی طور پر ، معجزانہ طور پر وہ لوگ جو رات کو بری طرح ہار رہے تھے وہ جیت گئے!!!!
پی ٹی آئی کے لوگ جو اکثریت سے جیت رہے تھے وہ محدود ہو گئے۔ پہلے غیر حتمی نتائج کے مطابق پی ٹی آئی 148 سیٹوں پر جیت رہی تھی۔ جبکہ نون لیگ 43 اور پی پی پی 47 سیٹوں پر جیت رہی تھی۔ مگر الیکشن کمیشن کو یہ نتائج پسند نہ آئے تو انہوں نے لائٹیں بند کر دیں اور جب دوسرے تیسرے دن جا کر لائٹیں آن کیں تو پی ٹی آئی فقط 93 سیٹوں تک محدود رہ گئی۔ جبکہ نون لیگ کو 73 اور پی پی پی کو 54 سیٹیں عنایت کر دیں۔ فارم 45 کی بجائے فارم 47 لوگوں کے ہاتھوں میں تھما کر انہیں جبراً فاتح قرار دیا جانے لگا!
دنیا بھر کے مبصرین، میڈیا، ماہرین نے پاکستان کے ان الیکشن کو تاریخ کا سب سے خنزیر ترین الیکشن قرار دیتے ہوئے تاریخ کا سب سے بڑا دھاندلی شدہ الیکشن قرار دیا اور پاکستان کی بدترین ذلت و رسوائی کا باعث بنا۔
ان الیکشن میں سب سے بڑا نقصان اور سب سے بڑی شکست پاکستان فوج کو ہوئی جنہوں نے اپنی حتمی الامکان کوشش کی کہ نوازشریف یہ الیکشن واضح اکثریت سے جیتے۔ لہذا تمامتر اوپر بیان کی گئی بندوشوں، پی ٹی آئی کے خلاف تحریب کاریوں، دہشتگردیوں کے باوجود عوام نے نہ صرف فوج کے منہ پر تھوکا بلکہ نوازشریف کی غلیظ اور بدکار اوقات سرعام ظاہر کر دی۔ ایسے الیکشن کراوانے پر فوج اور الیکشن کمیشن پر 75 سالوں اور کڑوڑوں انسانی کی جانب سے دن رات لعنت اور ذلت و رسوائی کا تحفہ ملنا چاہیے۔
جس مقصد کے لیے ایک جمہوری حکومت پر شب خون مارا، ایک بے گناہ انسان کو جیل میں ڈالا، اس کا نام تک ختم کر دیا، اسکے ایک ایک بندہ اور انکی فیملیوں کی ذلت کی، عورتوں کو بے آبرو کیا، نظام درہم برہم کیا، 9 مئی کا بدترین جھوٹا کھیل رچایا، کئی بے گناہ افراد کا قتل کرایا، لاکھوں کو ذہنی ٹارچر دیا، بے تحاشا پیسہ حرام کی راہ بہایا۔۔۔ وہ مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہے بلکہ شدید شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ بدترین دھاندلی کے باوجود ایک ایسا ماحول برپا کر دیا جس میں کسی کے پاس حکومت بنانا مشکل کر دیا۔ اسکا نتیجہ اب یہ نکلے کہ پی ٹی آئی کے وہ 93 افراد جنہوں نے آزاد امیدواربن کر الیکشن جیتا ہے ان پر مزید کھربوں پیسہ لگا انکا ضمیر خریدنے کی کوشش کی جائے گی! ان کو اور انکی عورتوں کو ہراساں کیا جائے گا اور انکی آبروریزی کی دھمکیاں دیکر ان کے ضمیر خرید کر انہیں نون گینگ میں شامل کیا جائے گا اور نوازشریف کے سر فتح کا تاج سجا دیا جائے گا: کیا تم اس کو الیکشن کہتے ہو؟ کیا تم اسکو جیت کہتے ہو؟ کیا تم اسکو حکومت کہتے ہو؟ میری جانب سے ہر اس فرد کے منہ پر تھو لعنت جو اس کو کامیابی کہتا ہے!!!
یہ الیکشن انسانی کائنات کے خنزیر ترین الیکشن تھے جن فوج کو بدترین شکست ہوئی ہے! اب تم جسے چاہو وزارت کا تاج پہنا دو، جسے چاہے حکومت دیدو، جسے چاہے ہیرو اور جسے چاہو ولئین بنا دو تمہاری مرضی! کیونکہ تم نے اسکا فیصلہ بہت پہلے کر دیا تھا جب تم نے کہا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ ملک کون چلا سکتا ہے۔ افسوس صرف اس بات کا ہے کہ تم محافظِ پاکستان ہوتے ہوئے اس قدر غلیظ اور بدکار ، قابلِ مذمت اور کرمنل کھیل میں پاکستانی قوم کا پیسہ، سرمایہ اور وقت برباد کرتے رہے!!!!
بقلم: مسعود
-
بس اتنا یا د ہے
[nk_awb awb_type=”color” awb_color=”#”][dropshadowbox align=”none” effect=”curve” width=”auto” height=”” background_color=”#FCBFF8″ border_width=”3″ border_color=”#780070″ ]
پروین شاکر – مجموعۂ کلام: خوشبو [/dropshadowbox]
[dropshadowbox align=”none” effect=”horizontal-curve-bottom” width=”auto” height=”” background_color=”#FCBFF8″ border_width=”3″ border_color=”#780070″ ]بس اتنا یا د ہے
دعا تو جانے کون سی تھی
ذہن میں نہیں
بس اتنا یاد ہے
کہ دو ہتھیلیاں ملی ہوئی تھیں
جن میں ایک میری تھی
اور اک تمہاری![/dropshadowbox][/nk_awb]
-
شرط
[nk_awb awb_type=”color” awb_color=”#”][dropshadowbox align=”none” effect=”curve” width=”auto” height=”” background_color=”#FCBFF8″ border_width=”3″ border_color=”#780070″ ]
پروین شاکر – مجموعۂ کلام: خوشبو [/dropshadowbox]
[dropshadowbox align=”none” effect=”horizontal-curve-bottom” width=”auto” height=”” background_color=”#FCBFF8″ border_width=”3″ border_color=”#780070″ ]شرط
ترا کہنا ہے
مجھ کو خالقِ کون ومکاں نے
کِتنی ڈھیروں نعمتیں دی ہیں
مری آنکھوں میں گہری شام کا دامن کشاں جادو
مرے لہجے کی نرمی موجہ گل نے تراشی ہے
مرے الفاظ پر قوسِ قزح کی رنگ پاشی ہے
مرے ہونٹوں میں ڈیزی کے گلابی پُھولوں کی رنگت
مرے رُخسار پر گلنار شاموں کی جواں حِدّت
مرے ہاتھوں میں پنکھڑیوں کی شبنم لمس نرمی ہے
مرے بالوں میں برساتوں کی راتیں اپنا رستہ بُھول جاتی ہیں
میں جب دھیمے سُروں میں گیت گاتی ہوں
تو ساحل کی ہوائیں
اَدھ کھلے ہونٹوں میں ،پیاسے گیت لے کر
سایہ گُل میں سمٹ کر بیٹھ جاتی ہیں
مرا فن سوچ کو تصویر دیتا ہے
میں حرفوں کو نیا چہرہ
تو چہروں کو حروفِ نوکارشتہ نذرکرتی ہوں
زباں تخلیق کرتی ہوں۔‘‘
ترا کہنا مجھے تسلیم ہے
میں مانتی ہوں
اُس نے میری ذات کو بے حد نوازا ہے
خدائے برگ وگل کے سامنے
میں بھی دُعا میں ہوں،سراپا شکر ہوں
اُس نے مجھے اِتنا بہت کُچھ دے دیا، لیکن
تجھے دے دے تو میں جانوں[/dropshadowbox][/nk_awb]
-
آنے والی کل کا دکھ
[nk_awb awb_type=”color” awb_color=”#”][dropshadowbox align=”none” effect=”curve” width=”auto” height=”” background_color=”#FCBFF8″ border_width=”3″ border_color=”#780070″ ]
پروین شاکر – مجموعۂ کلام: خوشبو [/dropshadowbox]
[dropshadowbox align=”none” effect=”horizontal-curve-bottom” width=”auto” height=”” background_color=”#FCBFF8″ border_width=”3″ border_color=”#780070″ ]آنے والی کل کا دکھ
مِری نظر میں اُبھر رہا ہے
وہ ایک لمحہ
کہ جب کسی کی حسین زُلفوں کی نرم چھاؤں میں آنکھ مُوندے
گئے دنوں کا خیال کر کے
تم ایک لمحے کو کھو سے جاؤ گے اور شاید
نہ چاہ کر بھی اُداس ہو گے
تو کوئی شیریں نوایہ پُوچھے گی
میری جاں ! تم کو کیا ہُوا ہے؟
یہ کس تصور میں کھو گئے ہو؟
تمھارے ہونٹوں پہ صبح کی اوّلیں کرن کی طرح سے اُبھرے گی مُسکراہٹ
تم اُس کے رُخسار تھپتھپا کے
کہو گے اُس سے
میں ایک لڑکی کو سوچتا تھا
عجیب لڑکی تھی۔۔۔کِتنی پاگل!
تُمھاری ساتھی کی خُوبصورت جبیں پہ کوئی شکن بنے گی
تو تم بڑے پیار سے ہنسو گے
کہو گے اُس سے
ارے وہ لڑکی
وہ میرے جذبات کی حماقت
وہ اس قدر بے وقوف لڑکی
مرے لیے کب کی مر چکی ہے!
پھر اپنی ساتھی کی نرم زُلفوں میں اُنگلیاں پھیرتے ہوئے تم
کہو گے اُس سے
چلو، نئے آنے والی کل میں
ہم اپنے ماضی کو دفن کریں[/dropshadowbox][/nk_awb]
-
خلش
[nk_awb awb_type=”color” awb_color=”#”][dropshadowbox align=”none” effect=”curve” width=”auto” height=”” background_color=”#FCBFF8″ border_width=”3″ border_color=”#780070″ ]
پروین شاکر – مجموعۂ کلام: خوشبو [/dropshadowbox]
[dropshadowbox align=”none” effect=”horizontal-curve-bottom” width=”auto” height=”” background_color=”#FCBFF8″ border_width=”3″ border_color=”#780070″ ]خلش
عجیب طرز ِملاقات اب کے بار رہی
تمہی تھے بدلے ہوئے یا مری نگاہیں تھیں!
تُمہاری نظروں سے لگتا تھا جیسے میری بجائے
تُمہارے گھر میں کوئی اور شخص آیا ہے
تُمہارے عہدے کی دینے تمھیں مُبارکباد
سو تم نے میرا سواگت اُسی طرح سے کیا
جو افسرانِ حکومت کے ایٹی کیٹ میں ہے!
تکلفاً مرے نزدیک آ کے بیٹھ گئے
پھر اہتمام سے موسم کا ذکر چھیڑ دیا
کُچھ اس کے بعد سیاست کی بات بھی نکلی
اَدب پہ بھی کوئی دوچار تبصرے فرمائے
مگر نہ تم نے ہمیشہ کی طرح یہ پُوچھا
کہ وقت کیسا گُزرتا ہے تیرا، جانِ حیات!
پہاڑ دن کی اذیت میں کِتنی شدت ہے
اُجاڑ رات کی تنہائی کیا قیامت ہے!
شبوں کی سُست روی کا تجھے بھی شکوہ ہے؟
غمِ فراق کے قصے ،نشاطِ وصل کا ذکر
روایتاً ہی سہی، کوئی بات تو کرتے![/dropshadowbox][/nk_awb]