یہ جو تم نے چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ قائم کر رکھی ہے، کیا بات ہے کس غم کو چھپا رہے ہو؟ اپنے عہدو پیمان بھی نبھائے تو کچھ اس طرح جیسے بے جان کتابوں کے بے جان صفحے، کوئی تو وجہ ہے کوئی تو بات ہے کہ ہم جس طرف دیکھیں تم ہی تم نظر آتے ہو، یہ کیا جادو ہے جس سے آنکھوں میں ایک خواب چھپا ہے جسے دنیا سے چھپایا ہے، کبھی خوشبو کے سفر کو بھی کوئی روک سکا ہے؟ اس میں غنچوں کا رزق ہے، آآآآآہ ایک وقت تھا جب ہمارے گرد ہمارے دوست رواں دواں تھے آج اسی لو کو ہوا کے دوش پر چھوڑ دیا ہے ، دن کی روشنی میں جب سب لوگ ہمارے گرد تھے رات کی سیاھی میں گم سم ہو گئے، کچھ یہی بتا دو کہ کیا گلہ تھا کیا شکوہ تھا ہمیں بھی بتاؤ کیوں سب کو باتوں میں لگا رکھا ہے؟ یادیں دل کی گہرائیوں میں گردش کرتی ہیں اور ان سے ہم نے اپنے دشتِ دل کو گلستان میں ڈھال دیا ہے
[mks_separator style=”solid” height=”1″]
ایسے چپ چپ رہنے والی اظہارِ محبت سے بے بہرہ لڑکی جب تیرے دل کو محسوس کیا تو ہمارے سوا اس میں کچھ نہ تھا، رویے کی سختی بھی ریشم کی طرح تھی جب چھو کر محسوس کیا تو سراپا حساس تھی، میری گھر کی خاموشیوں میں تیری یادیں اٹکھلیاں کرتی لڑکیوں کی طرح کبھی ہنستی کبھی روتی میرے گھر کی رونق تھیں۔
ہر موسم تم سے وابستہ تھا، تم تو سراپا خوشی تھی مگر تمامترغم میرے ہی تراشیدہ تھے، یہی میرے اثاثہ تھے، رویا تو کبھی دامن کو کبھی باطن کو بگھو لیا، کیا بتاتا کہ میرے چراغ گل میرے اپنوں سے ہوئے، جب جب غور کیا دور تک روشنی تھی اور حقائق چھپے ہوئے تھے، ذرا دیکھ تو میرے حوصلے کومیرا نام و نشاں مٹ گیا مگر میں نے غلط بات کو قبول نہ کیا، جب جب عروج آیا میں نے خود کو اس میں رسوا نہ ہونے دیا، پھول کی پتیوں پر پڑے جو بھی قطرے تھے وہی میرے اشک تھے۔
واقعہ ساہیوال ایک بار پھر ہمارے اداروں کی ناکامی اورغیرپروفیشنلزم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کیا یہ Terrorist subjected to Terrorism ہے یا اسٹیٹ ٹیرزم ہے؟ مگراس واقعہ کو گہرائی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
اطلاعات کے مطابق ذیشان نامی نوجوان کا رابطہ داعش کی دہشتگرد تنظیم کے ساتھ تھا، اور وہ ایک مدت سے انکے ساتھ خط و کتابت میں تھا، ذیشان کے دو مزید ساتھی جو واقعہ ساہیوال کے چند گھنٹے بعد گوجرانوالہ میں مارے گئے، ان کے افغانستان سے رابطے رہے اور یہ لوگ پاکستان میں دہشتگردی کا کوئی منصوبہ تیار کررہے تھے۔
تفصیلات کے مطابق انکے پاس سے اسلحہ اور باردو، خودکش جیکٹس ملی ہیں۔ یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ ذیشان کے قتل کے بعد افغانستان سے فون آئے اور دیگر ساتھیوں کو محتاط رہنے کی ھدایات جاری کی گئیں۔
اگر تو اس سارے واقعے میں صرف ذیشان قتل ہوتا تو شاید یہ قوم سی ٹی ڈی کو مبارک باد دیتی کہ دہشتگردی ہونے سے پہلے ہی اسکا سدِباب کیا گیا۔
مگر اس میں خلیل نامی آدمی اور اسکی بیوی اور ذیشان کی بیوی بھی مارے گئے جبکہ چند معصوم بچے بھی موجود تھے، جوکہ معجزانہ طور پر بچ گئے۔ اب مسئلہ Collateral Damage کا ہے۔ جس میں چند بے گناہ شہریوں کا قتل ہوا ہے۔
پنجاب پولیس
یہاں پر ہمیں بہت ساری باتوں پر توجہ دینی پڑے گی، اول تو یہ ہے کہ پاکستان کی پولیس جنرل طور پر اور پنجاب پولیس خاص طور پر انتہائی غیرپروفیشنل اور کسی بھی قسم کی جدید تعلیم و تربیت سے نابلد ہے۔
پنجاب پولیس کی اکثریت پچھلی حکومتوں کی بدمعاشانہ حرکات کا نتیجہ ہے جس میں بدمعاشوں اور اجڈ جاھلوں کو اٹھا کر پولیس میں بھرتی کر کے قتل و غارت کروائی گئی ہے، عزیربلوچ اور راؤ انوار انکی سب سے بڑی مثال ہیں بیشک وہ سندھ سے تھے۔ مگر خاص کر سندھ اور پنجاب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کی جرم پیشہ حکومتوں کا نتجہ ہے۔ وہی legacy پی ٹی آئی کی حکومت کو ملی ہے۔
مان بھی لیا جائے کہ ذیشان کا لنک داعش سے تھا، اور وہ دہشتگردی کے چکر میں خود تھا یا کسی سے کروانے کے لیے آرڈرز لے رھا تھا، مگر کبھی بھی پولیس کو یہ حق نہیں ہوتا کہ وہ یوں سرِ عام کسی پر اندھادھند فائرنگ کر کے اسے موت کے گھاٹ اتار دے۔
یہی واقعہ اگر امریکہ میں ہوتا تو گاڑی کو گھیراؤ میں لیا جاتا، اور مجرم کو باھر نکل کے زمین پر لیٹ جانے کا حکم دیا جاتا، پھر اسے گرفتار کیا جاتا، ساتھ ھی باقی تمام افراد اگر گاڑی میں ہوتے انہیں بھی فی الوقت حراست میں لے لیا جاتا۔
سوچا سمجھا منصوبہ؟
اس واقعہ سے یہی سمجھ آتا ہے کہ اس گاڑی میں جو کچھ بھی تھا اور جیسا بھی تھا اسے گولی مار دینے کا حکم دیا گیا تھا۔
اب یہ حکم کہاں سے آیا ؟ کس نے دیا؟ کیوں دیا؟ یہ کبھی سامنے نہیں آ سکتا۔ یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس پر عمل کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ پولیس کے نظام کی جاھلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے، اس پولیس پر کبھی کسی کو یقین تھا ہی نہیں اب کیسے ہو سکتا؟ جس پولیس کو کرپٹ زدہ لیڈران نے اپنے گھر کی ٹائیلٹیں صاف کرنے کے لیے رکھا ہو، اپنے ناخنوں کی میل بنا کر رکھا ہو، اپنے مفاد کے لیے کرائے کے قاتل بنا کر رکھا ہو اس سے انصاف کی امید ہو سکتی ہے؟
یہاں ایک مزید بات جو میری سمجھ سے باہر ہے کہ اگر سی ٹی ڈی کے تحت گاڑی میں اسلحہ تھا تو گاڑی تک عام لوگوں کی رسائی کیسے ہوئی؟ لوگ اسکی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر کیسے چڑھا سکتے ہیں؟ اسکے پیچھے سوچا سمجھا منصوبہ تھا، جس کا مطلب ایک بار پھر سیاسی عدم استحکام پھیلانا ہے، یاد رہے کہ زرداری کے عدالت میں پیشگی کی تاریخ قریب ہے۔۔۔
زیرِپریشرحکومت
اس میں اب سارے کا سارا پریشر پی ٹی آئی کی حکومت پر ہے۔
مخالفین جو کبھی خود قتل و غارت اور دہشتگردی کی سب سے اعلیٰ مثال رہے ہیں وہ اپنے ناپاک ماضی کو بھلا کر اس پر خوب سیاست چمکانے کی کوشش کریں گے، وہ اپنی فطرت کے مطابق کام کریں گے یہ بھول جائنگے کہ سب سے اعلیٰ سطح کا قتل بینظیر کا ہوا آج تک اسکا سراغ نہیں لگایا گیا، راؤ انوار سے پیپلز پارٹی نے قتل کروائے مگر ایک کی بھی تفتش نہیں کروائی گئی، عزیربلوچ نے کئی سو افراد کا قتل کیا مگر آج تک اس کو کیفرِ کردار تک نہیں پہنچایا گیا، چھوٹو گینگ کو استعمال کرتے ہوئے پنجاب میں نون لیگ کی حکومت قتل و غبن و حبسِ بیجا میں ملوث رہی ، گلوبٹوں کے ذریعے کتنے قتل نہیں کروائے؟ مگر کیا آج تک کسی قتل کا فیصل ہوا؟؟؟
میڈیا
میڈیا بھی ہمیشہ کی طرح اس واقعے کو اپنے اپنے چینلز کے ریٹنگ بڑھانے کے لیے بڑھا چڑھا کر پیش کرتا رہے گا، یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر وہ لوگ جنہیں اردو لکھنا بولنا نہیں آتی وہ بھی اپنی ماہرانہ رائے دیتے نظر آئیں گے۔
کہنا یہ نہیں کہ اسکو بھلا دیا جائے ہرگز نہیں بلکہ اب پی ٹی آئی کی حکومت کے پاس ایک نادر موقع ہے ، اس واقع کو بنیاد بنا کر وہ اصلاحات لائی جائیں جو عمران خان pre-election کہتا رھا ہے۔ یہ ایک بہت اچھا موقع ہے پولیس کا نظام بدلا جائے اور بلاتفریق بدلا جائے، اگر پاکستان میں کوئی اس قابل نہیں تو پولیس کا محکمہ بھی ٹھیکے پر اٹھا کر چینیوں کو بھرتی کر لیا جائے۔
رھی بات یہ کہ ذیشان دہشتگرد تھا یا نہیں، یا اسکے داعش کیساتھ رابطے تھے یا نہیں تو ہمارا معاشرہ ایسا معاشرہ ہے کہ والدین ساری عمر گناہ کرتے رہیں یا اولاد سب سے بدترین جرم میں مبتلا ہو، ہم لوگ اسے ماننے کو کہاں تیار ہوتے ہیں؟ کیا اوسامہ بن لادن نے کبھی اپنے آپ کو دہشتگرد مانا؟ یا جو جو اسکے ساتھ چلتا رھا، یا اسے راہِ حق پر سمجھتا رھا اسنے ایسا مانا؟ نہیں!
عشق میں کیا کیا مرے جنوں کی، کی نہ بُرائی لوگوں نے
تو تم بھی اپنے دل میں میری جانب سے غبار لے ہی آئی؟ اور تم نے بھی مجھے بدنام کیا، لوگوں کا کیا ہےوہ تو جلتی پر تیل ڈالتے ہیں وہ انہوں نے خوب ڈالا، مگر تم نے بھی انہیں خوب موقع دیا۔
مگرکبھی شبِ تنہائی میں بیٹھ کر فکر و بچار تو کرنا کہ تمہیں بام و در پر کون لایا؟ تمہیں عروج پر کون لایا؟ تمہارے انگ انگ پر میرا نام لکھا تھا اور میں ہی محروم رھا – تم سے تمہاری محبت سے۔۔ اب تو عشق و محبت، لیلیٰ مجنوں، ہیررانجھا، سسی پنوں، شیریں فرہاد، مرزاصاحباں سب کے سب بھول گئے ہمیں جو بھی یاد دلائی لوگوں نے جو تم سے آشنا تھے، شاید یہ آخری حملہ تھا میری ناکامِ وفاؤں پر کہ تم نے گھائل کیا اورانہیں لوگوں نے میرا لاشہ دفنا دیا، پر دیکھو تو سہی یہ میرا ہی لہو ہے نا جو شہربھر کے ہاتھوں پر نظر آ رہا ہے؟ تو پھر جشن کیسا؟
اک خلش کو حاصلِ عمرِ رواں رہنے دیا ، ادیب سہارنپوری کی لکھی ہوئی خوبصورت غزل پیغام پر پیش ہے
[/dropshadowbox]
اک خلش کو حاصلِ عمرِ رواں رہنے دیا جان کر ہم نے انہیں نامہرباں رہنے دیا کتنی دیواروں کے سائے ہاتھ پھیلاتے رہے عشق نے لیکن ہمیں بے خوانماں رہنے دیا اپنے اپنے حوصلے اپنی طلب کی بات ہے چن لیا ہم نے انہیں سارا جہاں رہنے دیا آرزوئے عشق بھی بخشی دلوں کو عشق نے فاصلہ بھی میرے ان کے درمیاں رہنے دیا کون اس طرزِ جفائے آسماں کی داد دے باغ سارا پھونک ڈالا آشیاں رہنے دیا یہ بھی کوئی جینے میں جینا بغیر اُن کے ادیبؔ شمع گل کر دی گئی باقی دھواں رہنے دیا
قرب کی کشش بھی عطائے عشق تھی اور ہوس کی آگ بھی عشق نے بھڑکائی مگر عجب لذت کیساتھ ایک فاصلہ بھی ہم میں ان میں رہنے دیا، دل میں ایک خلش رہی جو حاصلِ عمرِ رواں تھی، ہم نے جان بوجھ کر انہیں جانے دیاحالانکہ ہزاروں ہی درودیوار ہاتھ پھیلائے منتظر تھے مگر اے عشق نامہربان تم نے ہمیں بے گھر ہی رہنے دیا، تمہیں پاکر اے عشق رسوا ہم نے سارا جہاں جہاں کی رونقیں چھوڑ دیں، دیکھ حوصلہ دلِ سخت جان کا، کیسا عجیب جینا ہے یہ سب کچھ جلا کرشمعیں بجھا کر فقط ایک دھواں چھوڑ دیا۔۔
شبِ غم مجھ سے ملکر ایسے روئی – بہت حسین غزل ہے جسے ناھیداختر کے آواز نے اور لازوال بنا دیا ہے۔۔۔
[/dropshadowbox]
شبِ غم مجھ سے ملکر ایسے روئی
ملا ہو جیسے صدیوں بعد کوئی
ہمیں اپنی سمجھ آتی نہیں خود
ہمیں کیا خاک سمجھائے گا کوئی
قرین منزل پہ آ کے دم ہے ٹوٹا
کہاں آ کر میری تقدیر سوئی
کچھ ایسے آج انکی یاد آئی
ملی ہو جیسے دولت ایک کھوئی
سجا رکھا قفس ہے خون و پر سے
کہ اب تو بجلیاں لے آئے کوئی
تومسعودصاحب آپ ہمیں سمجھانے آئے ہیں؟ آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ہمیں سمجھا سکتے ہیں؟ ہمیں خود اپنی سمجھ نہیں آتی ہمیں کون کیا سمجھا سکتا ہے؟ ہم نے محبت کے عروج و زوال دیکھ لیے ہم نے زندگی کے نشیب و فراز دیکھ لیے اب ہمیں کوئی کچھ نہیں سمجھا سکتا، اب تو ہم راتوں کی تنہائی کو بھی ایسے گلے لگا کر ملتے ہیں جیسے ہمیں ہزاروں سال سے بچھڑا صنم سرِراہ مل گیا ہو،ہمیں تو انکی یاد ایسے آتی ہے جیسے قرون کا خزانہ مل جائے، مگر ہمارا نصیب دیکھو، جب بھی منزل سامنے آنے لگتی ہے ہمارے ہاتھ سے سب کچھ چھوٹ جاتا ہے، ہمارا دم وہاں ٹوٹتا ہے جب حدف دو گام رہ جاتا ہے۔ ایک ہی بار کہے دیتے ہیں قفس تیار ہے، خون دینے کو پر تیار ہیں اب کوئی ان پروں کو نوچ ڈالے، گرا دے بجلیاں جو گرا سکتا ہے۔۔۔
دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمہیں ہم تو سلگتے ہی رہتے ہیں کیوں سلگائیں تمہیں ترکِ محبت، ترکِ تمنا کر چکنے کے بعد ہم پہ یہ مشکل آن پڑی ہے، کیسے بھلائیں تمہیں سناٹا جب تنہائی کے زہر میں گجتا ہے وہ گھڑیاں کیونکر کٹتی ہیں کیسے بتائیں تمہیں جن باتوں نے پیار تمہارا نفرت میں بدلا ڈر لگتا ہے وہ باتیں بھی بھول نہ جائیں تمہیں دل کے زخم کا رنگ تو شاید آنکھوں میں بھر آئے روح کے زخموں کی گہرائی کیسے دکھائیں تمہیں اُڑتے پنچھی، ڈھلتے سائے، جاتے پل اور ہم بیرن شام کا دامن تھام کے روز بُلائیں تمہیں دُور گگن پر ہنسنے والے نرمل کومل چاند بے کل من کہتا ہے، آؤ ہاتھ لگائیں تمہیں پاس ہمارے آ کر تم بیگانہ سے کیوں ہو؟ چاہو تو ہم پھر کچھ دُوری پر چھوڑ آئیں تمہیں انہونی کی چنتا، ہونی کا انیائے نظرؔ
ہم اور ہماری محبت میاں – دونوں ہی تو دیپک کے راگ کی طرح ہیں: ہلکی ہکی آنچ پر میٹھی میٹھی آگ کے آلاؤ میں سلگتے رہنا۔
تم جانتے بھی ہو ہم کیا بتائیں تمہیں؟ ہم تو عجب مشکل سے دوچار ہیں کہ تمہیں جو بات بتانا چاہتے ہیں وہ بھی تو نہیں بتا سکتے۔
کیسے کہہ دیں کہ تم سے پیار کرتے تھے اب ترک کر چکے ہیں، تمہیں دل میں بساتے تھے اب ترک کر چکے۔
دن رات راگ کی میٹھی سروں میں چھڑتے رہتے تھے بھلا یہ بتانا آسان ہے؟ دل کے زخم تو شاید آنسو بن کر آنکھوں میں آئے اور تم دیکھ لو
مگر جو گزند ہماری روح کو لگی ہے، جس بات نے ہماری روح کو گھائل کیا ہے وہ کیسے دکھائیں؟
کبھی سوچنا کہ وہ گھڑیاں جن میں سناٹا اور تنہائی کا ملاپ ہو، کیسے کٹتی ہیں؟ کیسے بتائیں کہ ہم نے ایک ایک پل تمہیں پکارا، بلایا، سندیسے بھیجے
کبھی ڈھلتی شام کے سنگ، کبھی چلتی پون کے ہاتھ، کبھی گزرے پل میں گھس کر کبھی سایوں کے پیچھے بھاگ بھاگ کر۔۔
ہمارے پاس آتے ہی تم بیدرد کھٹور بن جاتے ہو جبکہ دوری پر حسن کی مثال لگتے ہو،
کہو تو پھر سے تمہیں وہیں چھوڑ آئیں؟مگر کچھ بھی ہو یا نہ ہو سب دل والوں کے بیری ہیں۔۔۔
اب کیا سوچے کیا ہونا ہے جو ہو گا اچھا ہوگا پہلے سوچا ہوتا پاگل، اب رونے سے کیا ہوگا یار سے غم کہہ کر تو خوش ہو لیکن تم یہ کیا جانو تم دِل کا رونا روتے تھے وہ دِل میں ہنستا ہو گا آج کسی نے دِل توڑا تو ہم کو جیسے دھیان آیا جس کا دِل ہم نے توڑا تھا وہ جانے کیسا ہو گا میرے کچھ پل مجھ کو دیدو باقی سارے دِن لوگو تم جیسا جیسا کہتے ہو سب ویسا ویسا ہو گیا
مجھے صرف وہ چند ایک لمحے دیدو جنہیں میں اپنا کہہ سکو، مجھے نہیں طلب سازوساماں کی نہ ہی ہوس ہے زمین و آسمان کی، مجھے صرف چند ایک پل چاہیے کیونکہ میں یہ سمجھتا رہا ہوں کہ میں جس کو اپنے دکھی دل کا حال بتا کر اپنے لیے کچھ حوصلہ حاصل کرتا تھا، کچھ ہمت بندھائی کی امید رکھتا تھا وہ تو میری کہانی سن کر دل ہی دل میں ہنستا رہا ہے، آج مجھے احساس ہوا کہ کوئی اپنا نہیں، کوئی کسی کے دکھ درد کو سن کو ملال نہیں کرتا بلکہ لوگ دوسروں کے دکھ درد پر ہنستے ہیں، میں پاگل تھا، دیوانہ تھا مگر اس دیوانگی میں یہ کیوں بھول گیا کہ آج مجھے چوٹ لگی ہے تو میں تڑپ اٹھا ہوں، کبھی میں نے اسکی نسبت سوچا ہے جسکا دل میں نے دکھایا تھا، وہ کس حال میں ہو گا؟
چاہت میں کیا دنیا داری عشق میں کیسی مجبوری لوگوں کا کیا سمجھانے دو اُنکی اپنی مجبوری میں نے دِل کی بات رکھی اور تو نے دنیا داروں کی میری عرض بھی مجبوری تھی اُنکا حکم بھی مجبوری روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو کچی مٹی تو مہکے گی ہے مٹی کی مجبوری جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے سب اپنے ہیں وقت پڑے تو یاد آجاتی ہے مصنوعی مجبوری
جب کوئی محبت میں مجبوری کی بات کرنا شروع کر دے تو اس کامطلب ہے وہ اسکو کبھی آپ سے محبت تھی ہی نہیں، وہ صرف احساسات و جذبات کے بہاؤ پر بہنے والا ایک بھنورا تھا جو پھول کی خوشبو اور اسکے رس کے چوسنے کا رسیا تھا کیونکہ محبت میں مجبوری ہوہی نہیں سکتی، چاھت کسی دنیاداری کو نہیں مانتی، جواس کو مجبوری بنائے وہ بیوفا، ہرجائی، سنگدل ہے اسکو محبت کا نام تک نہیں لینا چاہیے، لوگوں کے خوف کو مجبوری کا نام دینے والے محبت کے جذبے سے واقف ہو ہی نہیں سکتے، جیسے مٹی کے کام مہکنا ہے کیا کوئی کبھی بارش کو اسے پر پڑنے سے روک سکا ہے؟ محبت صرف سکھ سکون کا نام نہیں محبت تکالیف کا نام ہے جو ان تکالیف کو سہہ نہیں سکتا اور مصنوعی تو ہو سکتا محبوب نہیں۔۔۔
داغِ دِل ہم کو یاد آنے لگے لوگ اپنے دئیے جلانے لگے خود فریبی سی خود فریبی ہے پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گمان ہم یہ کیسا قدم اُٹھانے لگے ایک پل میں وہاں سے ہم اُٹھے بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو تیر پر ہی اُڑتے نشانے لگے
ایک عجب سے وہم وہ گمان میں زندگی پھنس چکی ہے کہ اپنا ہر اٹھایا ہوا قدم غیر یقینی سا لگنے لگا ہے، اپنے پاس کی شے اچھی لگنے لگی ہیں، جہاں کبھی اپنا مقام بنانے میں صدیاں لگیں وہاں ایک پل سے ایسے اٹھ کھڑے ہوئے کہ گویا جانتے ہی نہیں، یہ ہمارے دل کے داغ جلے ہیں کہ لوگوں کے دئیے جل اٹھے؟ ہمارے گھر کے چراغ سے کتنے گھروں میں اجالا ہو رہا ہے، پر کیا کریں مسعود صاحب قسمت سے مفر ہو سکتا ہے؟ جہاں تیر لگنا ہو وہاں خود بخود قدم لے جاتے ہیں۔۔۔