Blog

  • Current Affairs: Terrorist subjected to Terrorism?

    [mks_separator style=”solid” height=”4″]

    ساھیوال: دہشتگرد کو دہشتگردی کی نظر کر دیا گیا

    [mks_separator style=”solid” height=”1″]

    بیہمانہ قتل

    واقعہ ساہیوال ایک بار پھر ہمارے اداروں کی ناکامی اورغیرپروفیشنلزم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔  کیا یہ Terrorist subjected to Terrorism ہے یا اسٹیٹ ٹیرزم ہے؟   مگراس واقعہ کو گہرائی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

    اطلاعات کے مطابق ذیشان نامی نوجوان کا رابطہ داعش کی دہشتگرد تنظیم کے ساتھ تھا، اور وہ ایک مدت سے انکے ساتھ خط و کتابت میں تھا، ذیشان کے دو مزید ساتھی جو واقعہ ساہیوال کے چند گھنٹے بعد گوجرانوالہ میں مارے گئے، ان کے  افغانستان سے رابطے رہے اور یہ لوگ پاکستان میں دہشتگردی کا کوئی منصوبہ تیار کررہے تھے۔

    تفصیلات کے مطابق انکے پاس سے اسلحہ اور باردو، خودکش جیکٹس ملی ہیں۔ یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ ذیشان کے قتل کے بعد افغانستان سے فون آئے اور دیگر ساتھیوں کو محتاط رہنے کی ھدایات جاری کی گئیں۔

    اگر تو اس سارے واقعے میں صرف ذیشان قتل ہوتا تو شاید یہ قوم سی ٹی ڈی کو مبارک باد دیتی کہ دہشتگردی ہونے سے پہلے ہی اسکا سدِباب کیا گیا۔

    مگر اس میں خلیل نامی آدمی اور اسکی بیوی اور ذیشان کی بیوی بھی مارے گئے جبکہ چند معصوم بچے بھی موجود تھے، جوکہ معجزانہ طور پر بچ گئے۔ اب مسئلہ Collateral Damage کا ہے۔ جس میں چند بے گناہ شہریوں کا قتل ہوا ہے۔

    پنجاب پولیس

    یہاں پر ہمیں بہت ساری باتوں پر توجہ دینی پڑے گی، اول تو یہ ہے کہ پاکستان کی پولیس جنرل طور پر اور پنجاب پولیس خاص طور پر انتہائی غیرپروفیشنل اور کسی بھی قسم کی جدید تعلیم و تربیت سے نابلد ہے۔

    پنجاب پولیس کی اکثریت پچھلی حکومتوں کی بدمعاشانہ حرکات کا نتیجہ ہے جس میں بدمعاشوں اور اجڈ جاھلوں کو اٹھا کر پولیس میں بھرتی کر کے قتل و غارت کروائی گئی ہے، عزیربلوچ اور راؤ انوار انکی سب سے بڑی مثال ہیں بیشک وہ سندھ سے تھے۔ مگر خاص کر سندھ اور پنجاب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کی جرم پیشہ حکومتوں کا نتجہ ہے۔ وہی legacy پی ٹی آئی کی حکومت کو ملی ہے۔

    مان بھی لیا جائے کہ ذیشان کا لنک داعش سے تھا، اور وہ دہشتگردی کے چکر میں خود تھا یا کسی سے کروانے کے لیے آرڈرز لے رھا تھا، مگر کبھی بھی پولیس کو یہ حق نہیں ہوتا کہ وہ یوں سرِ عام کسی پر اندھادھند فائرنگ کر کے اسے موت کے گھاٹ اتار دے۔

    یہی واقعہ اگر امریکہ میں ہوتا تو گاڑی کو گھیراؤ میں لیا جاتا، اور مجرم کو باھر نکل کے زمین پر لیٹ جانے کا حکم دیا جاتا، پھر اسے گرفتار کیا جاتا،  ساتھ ھی باقی تمام افراد اگر گاڑی میں ہوتے انہیں بھی فی الوقت حراست میں لے لیا جاتا۔

    سوچا سمجھا منصوبہ؟

     اس واقعہ سے یہی سمجھ آتا ہے کہ اس گاڑی میں جو کچھ بھی تھا اور جیسا بھی تھا اسے گولی مار دینے کا حکم دیا گیا تھا۔

    اب یہ حکم کہاں سے آیا ؟ کس نے دیا؟ کیوں دیا؟ یہ کبھی سامنے نہیں آ سکتا۔ یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس پر عمل کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ پولیس کے نظام کی جاھلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے، اس پولیس پر کبھی کسی کو یقین تھا ہی نہیں اب کیسے ہو سکتا؟ جس پولیس کو کرپٹ زدہ لیڈران نے اپنے گھر کی ٹائیلٹیں صاف کرنے کے لیے رکھا ہو، اپنے ناخنوں کی میل بنا کر رکھا ہو، اپنے مفاد کے لیے کرائے کے قاتل بنا کر رکھا ہو اس سے انصاف کی امید ہو سکتی ہے؟

    یہاں ایک مزید بات جو میری سمجھ سے باہر ہے کہ اگر سی ٹی ڈی کے تحت گاڑی میں اسلحہ تھا تو گاڑی تک عام لوگوں کی رسائی کیسے ہوئی؟ لوگ اسکی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر کیسے چڑھا سکتے ہیں؟ اسکے پیچھے سوچا سمجھا منصوبہ تھا، جس کا مطلب ایک بار پھر سیاسی عدم استحکام پھیلانا ہے، یاد رہے کہ زرداری کے عدالت میں پیشگی کی تاریخ قریب ہے۔۔۔

    زیرِپریشرحکومت

    اس میں اب سارے کا سارا پریشر پی ٹی آئی کی حکومت پر ہے۔

    مخالفین جو کبھی خود قتل و غارت اور دہشتگردی کی سب سے اعلیٰ مثال رہے ہیں وہ اپنے ناپاک ماضی کو بھلا کر اس پر خوب سیاست چمکانے کی کوشش کریں گے، وہ اپنی فطرت کے مطابق کام کریں گے یہ بھول جائنگے کہ سب سے اعلیٰ سطح کا قتل بینظیر کا ہوا آج تک اسکا سراغ نہیں لگایا گیا، راؤ انوار سے پیپلز پارٹی نے قتل کروائے مگر ایک کی بھی تفتش نہیں کروائی گئی، عزیربلوچ نے کئی سو افراد کا قتل کیا مگر آج تک اس کو کیفرِ کردار تک نہیں پہنچایا گیا،  چھوٹو گینگ کو استعمال کرتے ہوئے پنجاب میں نون لیگ کی حکومت قتل و غبن و حبسِ بیجا میں ملوث رہی ، گلوبٹوں کے ذریعے کتنے قتل نہیں کروائے؟ مگر کیا آج تک کسی قتل کا فیصل ہوا؟؟؟

    میڈیا

    میڈیا بھی ہمیشہ کی طرح اس واقعے کو اپنے اپنے چینلز کے ریٹنگ بڑھانے کے لیے بڑھا چڑھا کر پیش کرتا رہے گا، یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر وہ لوگ جنہیں اردو لکھنا بولنا نہیں آتی وہ بھی اپنی ماہرانہ رائے دیتے نظر آئیں گے۔

    کہنا یہ نہیں کہ اسکو بھلا دیا جائے ہرگز نہیں بلکہ اب پی ٹی آئی کی حکومت کے پاس ایک نادر موقع ہے ، اس واقع کو بنیاد بنا کر وہ اصلاحات لائی جائیں جو عمران خان pre-election کہتا رھا ہے۔ یہ ایک بہت اچھا موقع ہے پولیس کا نظام بدلا جائے اور بلاتفریق بدلا جائے، اگر پاکستان میں کوئی اس قابل نہیں تو پولیس کا محکمہ بھی ٹھیکے پر اٹھا کر چینیوں کو بھرتی کر لیا جائے۔

    رھی بات یہ کہ ذیشان دہشتگرد تھا یا نہیں، یا اسکے داعش کیساتھ رابطے تھے یا نہیں تو ہمارا معاشرہ ایسا معاشرہ ہے کہ والدین ساری عمر گناہ کرتے رہیں یا اولاد سب سے بدترین جرم میں مبتلا ہو، ہم لوگ اسے ماننے کو کہاں تیار ہوتے ہیں؟ کیا اوسامہ بن لادن نے کبھی اپنے آپ کو دہشتگرد مانا؟ یا جو جو اسکے ساتھ چلتا رھا، یا اسے راہِ حق پر سمجھتا رھا اسنے ایسا مانا؟ نہیں!

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    بقلم: مسعود

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    current affairs
    current affairs
  • اک خلش کو حاصلِ عمرِ رواں رہنے دیا

    [nk_awb awb_type=”color” awb_color=”#bfffdd”]
    [mks_separator style=”solid” height=”4″]

    [dropshadowbox align=”none” effect=”lifted-both” width=”auto” height=”” background_color=”#ffffff” border_width=”1″ border_color=”#dddddd” ]

    اک خلش کو حاصلِ عمرِ رواں رہنے دیا ، ادیب سہارنپوری کی لکھی ہوئی خوبصورت غزل پیغام پر پیش ہے

    [/dropshadowbox]

    اک خلش کو حاصلِ عمرِ رواں رہنے دیا
    جان کر ہم نے انہیں نامہرباں رہنے دیا
    کتنی دیواروں کے سائے ہاتھ پھیلاتے رہے
    عشق نے لیکن ہمیں بے خوانماں رہنے دیا
    اپنے اپنے حوصلے اپنی طلب کی بات ہے
    چن لیا ہم نے انہیں سارا جہاں رہنے دیا
    آرزوئے عشق بھی بخشی دلوں کو عشق نے
    فاصلہ بھی میرے ان کے درمیاں رہنے دیا

    کون اس طرزِ جفائے آسماں کی داد دے
    باغ سارا پھونک ڈالا آشیاں رہنے دیا
    یہ بھی کوئی جینے میں جینا بغیر اُن کے ادیبؔ
    شمع گل کر دی گئی باقی دھواں رہنے دیا

    [dropshadowbox align=”none” effect=”lifted-both” width=”auto” height=”” background_color=”#9afff9″ border_width=”1″ border_color=”#dddddd” ]

    شاعر: ادیبؔ سہارنپوری

    [/dropshadowbox]

    [/nk_awb]

    [dropshadowbox align=”none” effect=”raised” width=”auto” height=”” background_color=”#8afff2″ border_width=”1″ border_color=”#dddddd” ]

    اک خلش کو حاصلِ عمرِ رواں رہنے دیا

    قرب کی کشش بھی عطائے عشق تھی اور ہوس کی آگ بھی عشق نے بھڑکائی مگر عجب لذت کیساتھ ایک فاصلہ بھی ہم میں ان میں رہنے دیا، دل میں ایک خلش رہی جو حاصلِ عمرِ رواں تھی، ہم نے جان بوجھ کر انہیں جانے دیاحالانکہ ہزاروں ہی درودیوار ہاتھ پھیلائے منتظر تھے مگر اے عشق نامہربان تم نے ہمیں بے گھر ہی رہنے دیا، تمہیں پاکر اے عشق رسوا ہم نے سارا جہاں جہاں کی رونقیں چھوڑ دیں، دیکھ حوصلہ دلِ سخت جان کا، کیسا عجیب جینا ہے یہ سب کچھ جلا کرشمعیں بجھا کر فقط ایک دھواں چھوڑ دیا۔۔

    [/dropshadowbox]

     

  • شبِ غم مجھ سے ملکر ایسے روئی

    [nk_awb awb_type=”color” awb_color=”rgba(255,79,125,0.38)”]
    [mks_separator style=”solid” height=”4″]

    [dropshadowbox align=”none” effect=”lifted-both” width=”auto” height=”” background_color=”#ffffff” border_width=”1″ border_color=”#dddddd” ]

    شبِ غم مجھ سے ملکر ایسے روئی – بہت حسین غزل ہے جسے ناھیداختر کے آواز نے اور لازوال بنا دیا ہے۔۔۔

    [/dropshadowbox]

    شبِ غم مجھ سے ملکر ایسے روئی
    ملا ہو جیسے صدیوں بعد کوئی
    ہمیں اپنی سمجھ آتی نہیں خود
    ہمیں کیا خاک سمجھائے گا کوئی
    قرین منزل پہ آ کے دم ہے ٹوٹا
    کہاں آ کر میری تقدیر سوئی
    کچھ ایسے آج انکی یاد آئی
    ملی ہو جیسے دولت ایک کھوئی
    سجا رکھا قفس ہے خون و پر سے
    کہ اب تو بجلیاں لے آئے کوئی

    [dropshadowbox align=”none” effect=”lifted-bottom-left” width=”auto” height=”” background_color=”#eec4d3″ border_width=”1″ border_color=”#dddddd” ]

    شاعر: 

    [/dropshadowbox]

    [/nk_awb]

    [dropshadowbox align=”none” effect=”lifted-bottom-left” width=”auto” height=”” background_color=”#f5fdc9″ border_width=”1″ border_color=”#dddddd” ]

    شبِ غم مجھ سے ملکر ایسے روئی

    تومسعودصاحب آپ ہمیں سمجھانے آئے ہیں؟ آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ہمیں سمجھا سکتے ہیں؟ ہمیں خود اپنی سمجھ نہیں آتی ہمیں کون کیا سمجھا سکتا ہے؟ ہم نے محبت کے عروج و زوال دیکھ لیے ہم نے زندگی کے نشیب و فراز دیکھ لیے اب ہمیں کوئی کچھ نہیں سمجھا سکتا، اب تو ہم راتوں کی تنہائی کو بھی ایسے گلے لگا کر ملتے ہیں جیسے ہمیں ہزاروں سال سے بچھڑا صنم سرِراہ مل گیا ہو،ہمیں تو انکی یاد ایسے آتی ہے جیسے قرون کا خزانہ مل جائے، مگر ہمارا نصیب دیکھو، جب بھی منزل سامنے آنے لگتی ہے ہمارے ہاتھ سے سب کچھ چھوٹ جاتا ہے، ہمارا دم وہاں ٹوٹتا ہے جب حدف دو گام رہ جاتا ہے۔ ایک ہی بار کہے دیتے ہیں قفس تیار ہے، خون دینے کو پر تیار ہیں اب کوئی ان پروں کو نوچ ڈالے، گرا دے بجلیاں جو گرا سکتا ہے۔۔۔

    یہ حسین غزل حسن و آواز کی ملکہ ناھید اختر کے نام

    [embedyt]https://www.youtube.com/watch?v=NNh0twHCu00[/embedyt]

    [/dropshadowbox]

  • دیپک راگ ہے چاھت اپنی

    [nk_awb awb_type=”color” awb_color=”rgba(255,79,125,0.38)”]

    دیپک راگ ہے چاھت اپنی
    [mks_separator style=”solid” height=”4″]

    [dropshadowbox align=”none” effect=”lifted-both” width=”auto” height=”” background_color=”#00806f” border_width=”1″ border_color=”#dddddd” ]

    غزل

    [/dropshadowbox]
    دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمہیں
    ہم تو سلگتے ہی رہتے ہیں کیوں سلگائیں تمہیں
    ترکِ محبت، ترکِ تمنا کر چکنے کے بعد
    ہم پہ یہ مشکل آن پڑی ہے، کیسے بھلائیں تمہیں
    سناٹا جب تنہائی کے زہر میں گجتا ہے

    وہ گھڑیاں کیونکر کٹتی ہیں کیسے بتائیں تمہیں
    جن باتوں نے پیار تمہارا نفرت میں بدلا

    ڈر لگتا ہے وہ باتیں بھی بھول نہ جائیں تمہیں
    دل کے زخم کا رنگ تو شاید آنکھوں میں بھر آئے
    روح کے زخموں کی گہرائی کیسے دکھائیں تمہیں
    اُڑتے پنچھی، ڈھلتے سائے، جاتے پل اور ہم
    بیرن شام کا دامن تھام کے روز بُلائیں تمہیں
    دُور گگن پر ہنسنے والے نرمل کومل چاند
    بے کل من کہتا ہے، آؤ ہاتھ لگائیں تمہیں
    پاس ہمارے آ کر تم بیگانہ سے کیوں ہو؟
    چاہو تو ہم پھر کچھ دُوری پر چھوڑ آئیں تمہیں
    انہونی کی چنتا، ہونی کا انیائے نظرؔ
    دونوں بیری ہیں جیون کے ہم سمجھائیں تمہیں

    [dropshadowbox align=”none” effect=”lifted-bottom-left” width=”auto” height=”” background_color=”#eec4d3″ border_width=”1″ border_color=”#dddddd” ]

    شاعر: ظہورنظرؔ

    [/dropshadowbox]

    [spacer size=”30″]

    [/nk_awb]

    [dropshadowbox align=”none” effect=”lifted-bottom-left” width=”auto” height=”” background_color=”#f5fdc9″ border_width=”1″ border_color=”#dddddd” ]

    دیپک راگ ہے چاھت اپنی

    ہم اور ہماری محبت میاں – دونوں ہی تو دیپک کے راگ کی طرح ہیں: ہلکی ہکی آنچ پر میٹھی میٹھی آگ کے آلاؤ میں سلگتے رہنا۔

    تم جانتے بھی ہو ہم کیا بتائیں تمہیں؟ ہم تو عجب مشکل سے دوچار ہیں کہ تمہیں جو بات بتانا چاہتے ہیں وہ بھی تو نہیں بتا سکتے۔

    کیسے کہہ دیں کہ تم سے پیار کرتے تھے اب ترک کر چکے ہیں، تمہیں دل میں بساتے تھے اب ترک کر چکے۔

    دن رات راگ کی میٹھی سروں میں چھڑتے رہتے تھے بھلا یہ بتانا آسان ہے؟  دل کے زخم تو شاید آنسو بن کر آنکھوں میں آئے اور تم دیکھ لو
    مگر جو گزند ہماری روح کو لگی ہے، جس بات نے ہماری روح کو گھائل کیا ہے وہ کیسے دکھائیں؟

    کبھی سوچنا کہ وہ گھڑیاں جن میں سناٹا اور تنہائی کا ملاپ ہو، کیسے کٹتی ہیں؟  کیسے بتائیں کہ ہم نے ایک ایک پل تمہیں پکارا، بلایا، سندیسے بھیجے
    کبھی ڈھلتی شام کے سنگ، کبھی چلتی پون کے ہاتھ، کبھی گزرے پل میں گھس کر کبھی سایوں کے پیچھے بھاگ بھاگ کر۔۔

    ہمارے پاس آتے ہی تم بیدرد کھٹور بن جاتے ہو جبکہ دوری پر حسن  کی مثال لگتے ہو،

    کہو تو پھر سے تمہیں وہیں چھوڑ آئیں؟مگر کچھ بھی ہو یا نہ ہو سب دل والوں کے بیری ہیں۔۔۔

    میری زبانی نہیں تو شاھدہ پروین کی زبانی سن لو

    [embedyt] https://www.youtube.com/watch?v=kzi-s-V9XOE[/embedyt]

    [/dropshadowbox]

  • اب کیا سوچے کیا ہونا ہے جو ہو گا اچھا ہو گا

    اب کیا سوچے کیا ہونا ہے جو ہو گا اچھا ہو گا

    [nk_awb awb_type=”color” awb_color=”rgba(163,181,162,0.54)”]
    [mks_separator style=”solid” height=”4″]

    اب کیا سوچے کیا ہونا ہے جو ہو گا اچھا ہوگا
    پہلے سوچا ہوتا پاگل، اب رونے سے کیا ہوگا
    یار سے غم کہہ کر تو خوش ہو لیکن تم یہ کیا جانو
    تم دِل کا رونا روتے تھے وہ دِل میں ہنستا ہو گا
    آج کسی نے دِل توڑا تو ہم کو جیسے دھیان آیا
    جس کا دِل ہم نے توڑا تھا وہ جانے کیسا ہو گا
    میرے کچھ پل مجھ کو دیدو باقی سارے دِن لوگو
    تم جیسا جیسا کہتے ہو سب ویسا ویسا ہو گیا
    [spacer size=”30″]

    [/nk_awb]

    [dropshadowbox align=”none” effect=”lifted-both” width=”auto” height=”” background_color=”#ffffff” border_width=”1″ border_color=”#dddddd” ]

    شاعر: ؟

    [/dropshadowbox]

    [dropshadowbox align=”none” effect=”lifted-both” width=”auto” height=”” background_color=”#ffffff” border_width=”1″ border_color=”#dddddd” ]

    مجھے صرف وہ چند ایک لمحے دیدو جنہیں میں اپنا کہہ سکو، مجھے نہیں طلب سازوساماں کی نہ ہی ہوس ہے زمین و آسمان کی، مجھے صرف چند ایک پل چاہیے کیونکہ میں یہ سمجھتا رہا ہوں کہ میں جس کو اپنے دکھی دل کا حال بتا کر اپنے لیے کچھ حوصلہ حاصل کرتا تھا، کچھ ہمت بندھائی کی امید رکھتا تھا وہ تو میری کہانی سن کر دل ہی دل میں ہنستا رہا ہے، آج مجھے احساس ہوا کہ کوئی اپنا نہیں، کوئی کسی کے دکھ درد کو سن کو ملال نہیں کرتا بلکہ لوگ دوسروں کے دکھ درد پر ہنستے ہیں، میں پاگل تھا، دیوانہ تھا مگر اس دیوانگی میں یہ کیوں بھول گیا کہ آج مجھے چوٹ لگی ہے تو میں تڑپ اٹھا ہوں، کبھی میں نے اسکی نسبت سوچا ہے جسکا دل میں نے دکھایا تھا، وہ کس حال میں ہو گا؟

    نصرت فتح علیخان کا خوبصورت انداز ۔۔۔

    [embedyt]https://www.youtube.com/watch?v=z_DFIkcKJL8[/embedyt]

    [/dropshadowbox]

  • داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے

    داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے

    [nk_awb awb_type=”color” awb_color=”rgba(163,181,162,0.54)”]
    [mks_separator style=”solid” height=”4″]
    [dropshadowbox align=”none” effect=”lifted-both” width=”auto” height=”” background_color=”#ffffff” border_width=”1″ border_color=”#dddddd” ]

    غزل

    [/dropshadowbox]

    داغِ دِل ہم کو یاد آنے لگے
    لوگ اپنے دئیے جلانے لگے
    خود فریبی سی خود فریبی ہے
    پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
    اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گمان
    ہم یہ کیسا قدم اُٹھانے لگے
    ایک پل میں وہاں سے ہم اُٹھے
    بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
    اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو
    تیر پر ہی اُڑتے نشانے لگے
    [spacer size=”30″]

    [/nk_awb]

    [dropshadowbox align=”none” effect=”lifted-both” width=”auto” height=”” background_color=”#ffffff” border_width=”1″ border_color=”#dddddd” ]

    شاعر: ؟

    [/dropshadowbox]

    [dropshadowbox align=”none” effect=”lifted-both” width=”auto” height=”” background_color=”#ffffff” border_width=”1″ border_color=”#dddddd” ]

    داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے

    ایک عجب سے وہم وہ گمان میں زندگی پھنس چکی ہے کہ اپنا ہر اٹھایا ہوا قدم غیر یقینی سا لگنے لگا ہے، اپنے پاس کی شے اچھی لگنے لگی ہیں، جہاں کبھی اپنا مقام بنانے میں صدیاں لگیں وہاں ایک پل سے ایسے اٹھ کھڑے ہوئے کہ گویا جانتے ہی نہیں، یہ ہمارے دل کے داغ جلے ہیں کہ لوگوں کے دئیے جل اٹھے؟ ہمارے گھر کے چراغ سے کتنے گھروں میں اجالا ہو رہا ہے،  پر کیا کریں مسعود صاحب قسمت سے مفر ہو سکتا ہے؟ جہاں تیر لگنا ہو وہاں خود بخود قدم لے جاتے ہیں۔۔۔

    فریدہ خانم کی زبانی۔۔

    [embedyt] https://www.youtube.com/watch?v=a9qSbx__oQ0[/embedyt]

    [/dropshadowbox]

  • دشت تنہائی میں اے جانِ جہاں لرزاں ہیں

    دشت تنہائی میں اے جانِ جہاں لرزاں ہیں

    [dropshadowbox align=”none” effect=”lifted-both” width=”auto” height=”” background_color=”#c3dbff” border_width=”1″ border_color=”#dddddd” ]

    نظم

    دشت تنہائی میں اے جانِ جہاں لرزاں ہیں
    تیری آواز کے سائے
    تیرے ہونٹوں کے سراب
    دشتِ تنہائی میں دُوری کے خس و خاک تلے
    کھل رہے ترے پہلو کے سمن اور گلاب
    اُٹھ رہی ہیں کہیں قربت سے
    تری سانس کی آنچ
    اپنی خوشبو میں سلگتی ہوئی
    مدھم مدھم ۔ دور افق پار ۔چمکتی ہوئی
    قطر ہ قطرہ ۔ گر رہی ہیں تری دلدار نظر کی شبنم
    دشتِ تنہائی میں اے جانِ جہاں لرزاں ہیں
    اِس قدر پیار سے اے جانِ جہاں رکھا ہے
    دل کے رخسار پہ اِس وقت تری یاد نے ہات
    یوں گماں ہوتا ہے گر چہ ہیں ابھی صبح فراق
    ڈھل گیا ہجر کا دِن آبھی گئی وصل کی رات
    دشتِ تنہائی میں اے جانِ جہاں لرزاں ہے

    [/dropshadowbox]

    [dropshadowbox align=”none” effect=”lifted-both” width=”auto” height=”” background_color=”#c3dbff” border_width=”1″ border_color=”#dddddd” ]

    شاعر: فیض احمد فیضؔ

    [/dropshadowbox]

  • مجھے بیخودی یہ تو نے بھلی چاشنی چکھائی

    مجھے بیخودی یہ تو نے بھلی چاشنی چکھائی

    [dropshadowbox align=”none” effect=”horizontal-curve-both” width=”auto” height=”” background_color=”#ffffff” border_width=”1″ border_color=”#dddddd” ]

    پیش لفظ

    حیرت مارازِ ہر دو جہاں بی نیاز کرد
    ایں خواب کارِ دولتِ بیدارِ می کنند
    کھلی جب کہ چشمِ دلِ حزیں
    تو وہ نم رھا نہ تری رہی
    ہوئی حیرت ایسی کچھ آنکھ پر
    بے اثر کی بے اثری رہی
    پڑی گوشِ جاں میں عجب ندا
    کہ جگر نہ بے جگری رہی

    خبرِ تخیرِ عشق سن نہ جنون رہا نہ پری رہی
    نہ تو تو رہا نہ میں رھا جو رہی سو بے خبری رہی

    [mks_icon icon=”fa-crosshairs” color=”#000000″ type=”fa”]

    کلام

    مجھے بیخودی یہ تو نے بھلی چاشنی چکھائی
    کسی آرزو کی دِل میں نہیں اب رہی سمائی
    نہ حضر ہے، نے خطر ہے، نہ رجا ہے، نے دعا ہے
    نہ خیالِ بندگی ہے، نہ تمنائے خدائی
    نہ مقامِ گفتگو ہے، نہ محلِ جستجو ہے
    نہ وہاں حواس پہنچے، نہ خرد کو ہے رسائی
    نہ مکیں ہے نے مکاں ہے نہ زمین ہے نے زباں ہے
    دِلِ بے نوا نے میرے وہاں چھاؤنی ہے چھائی
    نہ وصال ہے، نہ ہجراں، نہ سرور ہے، نہ غم ہے
    جسے کہیے خوابِ غفلت سو وہ نیند مجھ کو آئی

    [/dropshadowbox]

    [dropshadowbox align=”none” effect=”raised” width=”auto” height=”” background_color=”#ffffff” border_width=”1″ border_color=”#dddddd” ]

    شاعر: حضرت نیاز احمد شاہ

    [/dropshadowbox]

    [dropshadowbox align=”none” effect=”curled” width=”auto” height=”” background_color=”#ffffff” border_width=”1″ border_color=”#dddddd” ]

    میرا دل ایک ایسے مقام پر ہے کہ جہاں مجھے دنیا کی کسی رونق سے کوئی غرض نہیں، نہ مجھے ملاپ کی خوشی ہے نہ بچھڑنے کا غم، نہ کوئی آرزو باقی رہی ہے نہ کوئی حسرت نہ طلب، مجھ سے گفتگو کرو تو  لاحاصل نہ کرو توبہتر، میں جس مقام پر ہوں وہاں میرے حواس ایسے جگہ ہیں کہ مرے خرد کو بھی خبر نہیں، مجھے نہ مکان کی پروا رہی نہ زمان کی مجھ پر عشقِ حقیقی کی ایک نیند چھا گئی ہے کہ جہاں ہجر ہو وصال، سرور و غم کی کوئی پروا نہیں۔۔ میرے دلِ ناکردہ کار نے ایک ایسی جگہ چھاؤنی چھا لی ہے جہاں اسے کسی سود و زیاں کی پروا نہیں۔۔۔ سنیے عابدہ پروین کیا کہتی ہیں۔۔۔

    [embedyt] https://www.youtube.com/watch?v=D5AOKT0KXOM[/embedyt]

    [/dropshadowbox]

  • ایسا بننا سنورنا مبارک تمہیں کم سے کم اتنا کہنا ہماراکرو

    ایسا بننا سنورنا مبارک تمہیں کم سے کم اتنا کہنا ہماراکرو

    [nk_awb awb_type=”color” awb_color=”rgba(165,255,246,0.84)”]
    [mks_separator style=”solid” height=”4″]

    قوالی کی شکل میں

    ایسا بننا سنورنا مبارک تمہیں کم سے کم اتنا کہنا ہمارا کرو

    وہ کیا سنور گئے  میری قسمت سنور گئی
    ان کا بننا سنورنا – ایسا بننا سنورنا

    وہ اگر بن سنور گئے ہوں گئے
    دیکھنے والے مر گئے ہوں گئے
    ان کا بننا سنورنا – ایسا بننا سنورنا

    ہزاورں وعدۂ شب اس نے اس صورت  سے پالے ہیں
    کبھی مہندی لگائی ہے کبھی گیسو سنبھالے ہیں
    ان کا بننا سنورنا – ایسا بننا سنورنا

    مریضوں کا دم آنکھوں میں ہے وہ ہے محوِ آرائش
    وہاں ہونٹوں کی لالی ہے یہاں جانوں کے لالے ہیں
    ان کا بننا سنورنا – ایسا بننا سنورنا

    ہزاروں فریاد کر رہے ہیں مگر کسی پر نظر نہیں ہے
    وہ محو ہیں آئینے میں ایسے کہ انکو اپنی خبر نہیں ہے
    ان کا بننا سنورنا – ایسا بننا سنورنا

    آئینے میں ہر ادا کو دیکھ کر کہتے ہیں وہ
    آج یہ دیکھیں گے ہم کس کس کی ہےآئی ہوئی
    ان کا بننا سنورنا – ایسا بننا سنورنا

    سجنے کے وقت یہ بھی ذرا دیکھتے نہیں
    آئینہ دیکھتا ہے انہیں کس نگاہ سے
    ان کا بننا سنورنا – ایسا بننا سنورنا

    انہیں آرائشِ گیسو سے مطلب
    کوئی دیوانہ ہو جائے بلا سے
    ان کا بننا سنورنا – ایسا بننا سنورنا

    ایسا بننا سنورنا مبارک تمہیں کم سے کم اتنا کہنا ہمارا کرو
    چاند شرمائے گا چاندنی رات میں یوں نہ زلفوں کو اپنی سنوارا کرو

    یہ تبسم یہ عارض یہ روشن جبیں یہ ادا یہ نگاہیں یہ زلفیں حسیں
    آئینے کی نظر لگ نہ جائے کہیں جانِ جاں اپنا صدقہ اتارا کرو

    دل تو کیا چیز ہے جان سے جائیں گے موت آنے سے پہلے ہی مر جائیں گے
    یہ ادا دیکھنے والے لٹ جائیں گے یوں نہ ہنس ہنس کے دلبر اشارا کرو

    یہ ادا ہے کیا قیامت، یہ ادا یہ ادا کیا قیامت یہ ادا
    ہر ادا مستانہ سر سے پاؤں  تک چھائی ہوئی
    اف تیری کافر جوانی جوش پر آئی ہوئی
    کیا قیامت! یہ ادا ہے ، یہ ادا، کیا قیامت

    بسمل کا خدا حافظ قاتل کا خدا حافظ
    تم جس دل پر نظر ڈالو اس دل کا خدا حافظ
    کیا قیامت! یہ ادا ہے یہ ادا کیا قیامت

    انداز اپنے دیکھتے ہیں آئینے میں وہ
    اور یہ بھی دیکھتے ہیں کوئی دیکھتا نہ ہو
    کیا قیامت! یہ ادا ہے کیا قیامت

    دل چرانے کی ادا خاص ہوا کرتی ہے
    دیکھ لیتے ہیں وہ گزیدہ نظر سے
    کیا قیامت! یہ ادا ہے یہ ادا کیا قیامت

    ذرا انکی شوخی تو دیکھیے لیے زلفِ خم شدہ ہاتھ میں
    میرے پاس آ کے دبے دبے مجھے سانپ کہہ کے ڈرا دیا
    کیا قیامت! یہ ادا ہے یہ ادا کیا قیامت

    انگڑائی لے کے اس نے مجھ پہ خمار ڈالا
    ظالم کی اس ادا نے بس مجھ کو مار ڈالا
    کیاقیامت! یہ ادا ہے یہ ادا کیا قیامت

    انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ
    دیکھا مجھے تو چھوڑ دیئے مسکرا کے ہاتھ
    کیا قیامت! یہ ادا ہے یہ ادا کیا قیامت

    یہ ادا دیکھنے والے لٹ جائیں گے
    یوں نہ ہنس ہنس کے دلبر اشارا کرو

    فکرِ عقبا کی مستی اتر جائے گی توبہ ٹوٹی تو قسمت سنور جائے گی
    تم کو دنیا میں جنت نظر آئے گی شیخ جی میکدے کا نظارا کرو

    کام آئے  نہ مشکل میں کوئی یہاں مطلبی دوست ہیں مطلبی یار ہیں
    اس جہاں میں نہیں کوئی اھلِ وفا اے فناؔ اس جہاں سے کنارا کرو

    ایسا بننا سنورنا مبارک تمہیں کم سے کم اتنا  ہمار کرو

     

    [spacer size=”30″]

    [/nk_awb]

    [dropshadowbox align=”center” effect=”lifted-both” width=”auto” height=”” background_color=”#ffffff” border_width=”1″ border_color=”#9397e6″ ]

    شاعر: فناؔبلندشہری (سرخ رنگ میں)
    [/dropshadowbox]

    [dropshadowbox align=”none” effect=”lifted-both” width=”auto” height=”” background_color=”#ffffff” border_width=”1″ border_color=”#dddddd” ]

    ایسا بننا سنورنا مبارک تمہیں کم سے کم اتنا کہنا ہماراکرو

    اردو کی رومانٹک شاعری میں فناؔ کا جواب نہیں! الفاظ کو ایسے حسین پرائے میں باندھتے ہیں کہ محبوب کے انگ انگ کی تعریف خود کرنے لگتے ہیں، اور پھر فنا کی اس حسین شاعری کو نصرت فتح علیخان نے کس زبردستی سے زیروبم کیا ہے، آپ خود سنئیے:

    [embedyt] https://www.youtube.com/watch?v=Dkc4uI-Iyis[/embedyt]

    [/dropshadowbox]

  • دل پہ زخم کھاتے ہیں جان سے گزرتے ہیں

    دل پہ زخم کھاتے ہیں جان سے گزرتے ہیں

    [nk_awb awb_type=”color” awb_color=”rgba(165,255,246,0.84)”]
    [mks_separator style=”solid” height=”4″]

    غزل

    دِل پہ زخم کھاتے ہیں جان سے گزرتے ہیں
    جرم صرف اتنا ہے اُن کو پیار کرتے ہیں
    اعتبار بڑھتا ہے اور بھی محبت کا

    جب وہ اجنبی بن کر پاس سے گزرتے ہیں
    اُن کی انجمن بھی ہے دار کی رسن بھی ہے
    دیکھنا ہے دیوانے اب کہاں ٹھہرتے ہیں
    اُن کے اِک تغافل سے ٹوٹتے ہیں دِل کتنے
    اُن کی اک توجہ سے کتنے زخم بھرتے ہیں
    وہ دیارِ جاناں ہو یا جوارِ میخانہ
    گردشیں ٹھہرتی ہیں ہم جہاں ٹھہرتے ہیں
    جو پلے ہوں ظلمت میں کیا سحر کو پہچانیں
    تیرگی کے شہدائی روشنی سے ڈرتے ہیں
    لاکھ وہ گریزاں ہو لاکھ دشمنِ جان ہوں
    دِل کو کیا کریں صاحب ہم انہیں پہ مرتے ہیں

    [spacer size=”30″]

    [/nk_awb]

    [dropshadowbox align=”center” effect=”lifted-both” width=”auto” height=”” background_color=”#ffffff” border_width=”1″ border_color=”#9397e6″ ]

    شاعر: ?[/dropshadowbox]

    [dropshadowbox align=”none” effect=”lifted-both” width=”auto” height=”” background_color=”#ffffff” border_width=”1″ border_color=”#dddddd” ]

    غالب نے کہا تھا، خاک ہو جائیں ہم تم کو خبر ہونے تک، صاحب اب تو تغافل برتو یا دامن بچاو، نظریں چراؤ یا لن ترانی پہ آجاؤ ، دل تم پر مر مٹا ہے اب اس پر ستم ہوں یا جفائیں، جاں سے گزریں یا اپنا بنالو، ہم تو تم سے پیار کرتے ہیں شاید یہی ہماری وفاؤں کا جرم ہے، ہمیں کیا کہ دار کی رسن ہو یا محفلِ یار ہمیں تو پتنگوں سے غرض ہے کہ وہ کس سمت جاتے ہیں، تم تو ٹھہرے صنم اور صنموں کے ایک تغافل سے کیا کیا حسین دل ٹوٹ جاتے ہیں یہ تم کیا جانو؟

    فتح علیخان اسکو  یوں بیان کرتے ہیں:

    [embedyt] https://www.youtube.com/watch?v=c8Fb5RQ4_mY[/embedyt]

    [/dropshadowbox]