Welcome to WordPress. This is your first post. Edit or delete it, then start writing!
Blog
-
غزلِ آتشؔ
غزلِ آتشؔ
[nk_awb awb_type=”color” awb_color=”#ceff75″][spacer size=”10″][mks_separator style=”solid” height=”2″]
غزلِ آتشؔ
[dropshadowbox align=”none” effect=”curled” width=”auto” height=”” background_color=”#acf0a4″ border_width=”2″ border_color=”#195600″ ]
وحشتِ دل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا
سینکڑوں کوس نہیں صورتِ انسان پیدادل کے آئینے میں جوھرِ پنہاں پیدا
در و دیوار سے ہو صورتِ جاناں پیداباغِ سنسان نہ کر انکو پکڑ کر صیاد
بعد مدت ہوئے ہیں مراغِ خوش الہاں پیدااب قدم سے ہے مرے خانۂ زنجیر آباد
مجھ کو وحدت نے کیا سلسلۂ جنباں پیداروح کی طرح سے داخل ہو جو دیوانہ ہے
جسم خاکی سمجھ اسکو جو ہو زنداں پیدابے حجابوں کا مگر شہر ہے اقلیم عدم
دیکھتا ہوں جسے ہوتا ہے وہ عریاں پیدااک گل ایسا نہیں ہووے نہ خزاں جسکی بہار
کون سے وقت ہوا تھا یہ گلستاں پیداموجدِ اس کی ہے سیہ روزی ہماری آتشؔ
ہم نہ ہوتے تو نہ ہوتی شبِ ہجراں پیدا[/dropshadowbox]
شاعر: خواجہ حیدر علی آتشؔ
[/nk_awb]
غزلِ آتشؔ
For Romanized Urdu see page 2
-
مرزامحمدرفیع سودا
Mirza Muhammad Rafi Sauda
[mks_separator style=”solid” height=”3″]
اردو شعرا – ویکی
[mks_separator style=”solid” height=”2″]
مرزامحمدرفیع سوداؔ
[mks_separator style=”solid” height=”1″]
عرصہ: 1713 تا 1781
[mks_separator style=”solid” height=”1″]
مرزامحمدرفیع سودا اردو زبان کی ایک عالمگیر شاعر و استاد تھے۔ آپ کا نام اردو شاعری کے ان شعرأ حضرات میں ہوتا ہو جن کا اعزاز حاصل ہے کہ آپ کے کلام سے اردو کی ساخت کو پذریرائی ملی۔
پیدائش
آپ کے والد مرزا محمد شفیع کا تعلق کابل سے تھا۔ آپ ایک تجارت پیشہ بزرگ تھے جو تجارت کے سلسلے میں مختلف بلاد گھوما کرتے تھے۔ والد بزرگوار کو دھلی کی آپ و ہوا اسقدر موافق آئی کہ یہی کے ہو کر رہ گئے۔ اپنے مستقل ٹھکانہ دھلی کی سرزمین کو بنا لیا۔ اور مرزا محمد رفیع کی پیدائش بھی دھلی ہی میں ہوئی۔ آپ پیدائش کا سن 1713 عیسوی بتایا جاتا ہے۔
دھلی ہی میں تعلیم ور تربیت ہوئی۔ شاعری کا شوق بچپن سے تھا اور جب ولی دکنی نے دھلی کا دورہ کیا اور انکے ریختہ یعنی اردو کی شاعری نے دھوم مچا دی تو ہر کسی کے دل میں اردو شاعری کی محبت جاگی۔ یہی سے مرزامحمدرفیع سودا نے بھی اردو کا ذریعۂ شاعری بنایا۔
شاعری
مرزامحمدرفیع سودا نے شاعری کو اپنایا تو اپنا تخلص سودا چنا۔ اور اپنے لیے پہلے استادِ محترم کے طور پر سلیمان قلی خان وداد کو چنا۔ اور بعد میں شاہ حاتم سے اصلاحات لیتے رہے۔
سوداؔ تخلص کی نسبت مولانا آزاد نے ایک دلچسپ سبب بتایا ہے کہ یا تو یہ اپنے والدگرامی کی تاجرانہ طبیعت کے موافق ‘سودا’ رکھا یا پھر اس جنونِ عشق ہے جس پر ایشیائی شاعری کا دارومدار ہے اسکی نسبت سے ‘سودا’ تخلص رکھا۔
سودا کی ابتدائی شاعری بھی فارسی میں بہت تھی۔ فارسی کے ساتھ ساتھ اردو میں مشق جاری رکھی اور پھر جب خان آرزو نے ترغیب دی کی فارسی کی نسبت اردو کو اپنی مرکزی سوچ بنائیں تو مرزامحمدرفیع سودا کی ساری توجہ اردو میں ہو کر رہ گئی۔
مرزاسودا کی اردو شاعری کی ایسی شہنائی گونجی کی اسکے لے بادشاہِ وقت جو بذاتِ خود فارسی گو شاعر تھے ان کے کانوں تک جا پہنچی۔ بادشاہ شاہ عالم نے سودا کو بلا بھیجا اور ان سے اپنے کلام کی اصلاح کی گزارش کردی یوں سودا بادشاہ کے استاد مقرر ہو گئے۔
مگر کچھ ہی عرصہ بعد بادشاہ سے کچھ ناقاچی چل نکلی اور دربار کو خیرآباد کہہ دیا۔ اس وقت دلی عیش و عشرت کی دلی تھی۔ رونقیں، عروج، دولت و فرحت ہر طرف تھی، کئی ایک قدردان ایسے شعرا کے لیے بیقرار پھرتے تھے، مرزامحمدرفیع سودا کے قدردان کم نہ تھے۔
ہجرت اور دربدری
مرزامحمدرفیع سودا کی شہرت کا ڈھنکا دور دور بج رھا تھا۔ فیض آباد جہاں اودھ کا حکمران صوبہ دار نواب شجاع الدولہ نائب سلطنت تھا۔ شجاع الدولہ کے دربار سے ہزاروں امیر و غریب اور ہنرمند و بے ہنر وابستہ تھے اور اپنی روزی رزق تلاش کرتے تھے۔ شجاع الدولہ نے مرزارفیع سوداؔ کو طلب کر لیا مگر مرزا سودا جو اس وقت دلی کی رنگینوں میں کھوئے ہوئے تھے اور ایک سے بڑھ کر ایک امیر قدردان مل جاتا تھا، وہیں خوش تھے لہٰذا انکار کر دیا۔
مگر گردشِ دوراں نے ایسی کروٹ بدلی کہ مرہٹوں نے سر اٹھایا اور سارے ہندوستان میں قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا۔ دلی بھی نہ بچ سکی اور شہر اجاڑ سنسان اور تباہ حالی کی جانب بڑھنے لگا۔ یہاں تک کہ وہ جو کبھی ڈھونڈنے سے غریب غربا ڈھونڈا کرتے تھے اب خود نانِ شبینہ کے لیے ترسنے لگے۔
بھوک اور افلاس نے جب اپنا رنگ دکھانا شروع کیا تو مرزاسوداؔ بھی ہجرت پر مجبور ہو گئے۔ مرزاسودا کی عمر اس وقت قریب قریب 60 سال تھی اور فرخ آباد جا پہنچے، جہاں اس وقت نواب احمدبخش خان بنگش مسند آرا اور انکے دیوانِ اعلیٰ نواب مہربان خان رند تھے۔ مہربان خان بذاتِ خود علم و ہنر اور شعروسخن کے دیوانے تھے۔ انہوں نے سودا کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ رند میرسوز کے ساتھ ساتھ مرزاصاحب کے بھی شاگرد ہو گئے اور یوں مرزا سودا کے دن نیارے گزرنے لگے۔
ہجرتِ نو
سن ہجری 1185 بمطابق 72-1171 نواب احمدبخش خان کا انتقال ہو گیا اور انکی حکومت کا سارے کا سارا دفتر برخاست ہو گیا۔ مرزاسوداؔ نے ایک بار پھر اپنا رختِ سفر باندھا اور فرخ آباد کو الوداع کہہ کر فیض آباد پہنچے اور زمرہ ملازمین میں داخل ہو گئے۔ نواب شجاع الدولہ کے انتقال کے بعد نواب آصف الدولہ حکمران بنے اور لکھنؤ کو اپنا درالحکومت بنایا۔ اور مرزاسودا کو بھی حکومت کے ساتھ لکھنؤ منتقل ہونا پڑا۔
لکھنؤ میں دلی کی طرح شعر و شاعری کا ستارا انتہائی بلندیوں پر تھا اور اعلیٰ پائے کے شعراأ جن میں مصحفی، قمرالدین منت جیسے موجود تھے۔ مرزا سودا کی شاعری نے یہاں بھی عروج پکڑا اور اپنے کمال کہ پہنچی۔ ساٹھ پینسٹھ سالہ مرزاسودا کی شاعری پختہ اور اعلٰی مقام پر تھی کہ آصف الدولہ نے انہیں ملک الشعرأ کا خطاب عطا کیا اور 6000 پیشن مقرر کی۔
انتقال
مرزامحمدرفیع سودا کا انتقال ہجری سال کے مطابق 1195 بمطابق 81-1780 عیسویں میں لکھنؤ میں ہوا۔
تخلیقات
- مثنوی در ہجوِ حکیم غوث
- مثنوی در ہجوِ امیر دولت مند بخیل
- مثنوی در تعریفِ شکار
- مثنوی در ہجوِ پل راجن نری پت سنگھ
- مثنوی در ہجوِ سیڈی فولاد خان کوتوالِ شجاع آباد
- مثنوی در ہجوِ فدوی مطواطنِ پنجاب کی داراصل بقل بچاۃ بد
- مثنوی در ہجوِ چپک مرزا فیضو
- قصیدہ درویش کی ارادہ زیارت کعبہ کردہ بد
- مخمص شہر آشوب
- قصیدہ در مدہِ نواب وزیر عماد الملک
Mirza Muhammad Rafi Sauda
[mks_separator style=”solid” height=”2″]
مسعودؔ
[mks_separator style=”solid” height=”2″]
-
PSL4: Multan Sultans vs Lahore Qalandars
PSL4: Multan Sultans vs Lahore Qalandars
[mks_separator style=”solid” height=”4″]
لاہورقلندرز بمقابلہ ملتان سلطانز
[mks_separator style=”solid” height=”1″]
پی ایس ایل کا دسواں میچ شاجہ میں لاہور قلندرز اور ملتان کے مابین ہوا۔
لاہور نے ٹاس جیتا اور پہلے ملتان کو بیٹنگ کی دعوت دی۔
ملتان اننگ
ملتان کی جانب سے جیمز ونس اور عمرصدیق نے بیٹنگ کی۔
دونوں بیٹسمینوں نے پی ایس ایل کی سب سے شانداراوپننگ پارٹنرشپ کرتے ہوئے ہوئے قلندروں کے اندر سے بھنگ نکالنی شروع کر دی۔
ایک کے بعد دوسرے کی خوب پٹائی ہوئے اور چوتھے اوور کی تیسری بال پر ہی 50 رنز بنا ڈالے۔ دسویں اوور میں اسکور 111 تک جا پہنچا۔ اس میں ونس کے 33 بالوں پر 66 اور عمرصدیق کے 27 بالوں پر 38 رنز تھے۔ راحت علی کے 3 اوور میں 42 رنز بن چکے تھے۔
لاہور کو پہلی کامیابی گیارہوں اوور کی پانچویں بال پر ملی جب 135 کے اسکور پر ونس 41 بالوں پر 7 چوکوں اور 6 چھکوں کی مدد سے 84 رنز بنا کر لامیشان کی بال پر فخرزمان کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہو گیا۔
تیرہویں اوور کی چھٹی بال پر لامیشان نے شعیب ملک کو تھی آؤٹ کر دیا۔ شعیب کا کیچ وائس نے پکڑا، شعیب نے 10 رنز اسکور کیے۔
پندرہواں اوور جو شاھین شاہ آفریدی نے پھینکا بہت جاندار تھا اور ملتان کو رنز بنانے کا موقع نہ دیا۔ البتہ لاہور سیٹ بیٹسمن عمر صدیق کی وکٹ اڑانے میں کامیاب ہو گیا۔
عمرصدیق نے 28 بالوں پر 4 چوکوں اور 2 چکھوں کی مدد سے 53 کی عمدہ اننگ کھیلی، اسکا کیچ سہیل اختیر نے کیا۔ اس سے پچھلی بال پر رسل کا کیچ چھوٹ چکا تھا۔
رسل نے اگلے اوور کی پہلی بال پر چھکا رسید کر دیا مگر تیسری بال پر جو لامیشان نے پھینکی اور پر آؤٹ ہو گیا۔
آخری اوور جو حارث راؤف نے کرایا اس میں اس نے دو وکٹس لیے مگر اس مقام پر وکٹس سے زیادہ رنز اہم تھے۔ ملتان اس سال پی ایس ایل کی پہلی ٹیم بنی جو 200 کا حدف حاصل کر پائی۔ ملتان کے بیس اوورز میں 6 وکٹس پر 200 رنز تھے۔
لاہورقلندرز اننگ
لاہور جو پی ایس ایل کی تاریخ میں انتہائی معذور ٹیم ثابت ہوا ہے اب ایک بہت بڑے اسکور کے تعقب میں تھا۔
لاہور کو 10 رنز فی اوور کی اوسط سے اپنا حدف حاصل کرنا تھا۔
پہلے 3 اوور میں وہ اسی اسپیڈ سے رنز بناتے رہے اور رن ریٹ کو کنٹرول میں رکھا۔
سہیل اختر اور فخرزمان کی ایک نظر اسکور بورڈ پر تھی اور دوسری رنز بنانے پر مگر تیسرے اوور کی پانچویں بال پر سہیل اختر نے بھرپور انداز میں چھکا لگانے کی کوشش کی مگر آندرے رسل نے اپنے لمبے قد کا استعمال کرتے ہوئے بانڈری سے کچھ پہلے شاندار کیچ پکڑ لیا۔ لاہور کا اسکور چوتھے اوور میں 35 رنز ایک وکٹ پر۔
لاہور کے 50 رنز چھٹے اوور میں جا کر پورے ہوئے اور ابھی سے لاہور اپنے مطلوبہ رن ریٹ سے دور ہو رہا تھا۔ مگر دوسری وکٹ کی شراکت میں فخر زمان اور سلمان بٹ نے اسکور کو سو رنز سے اوپر پہنچا دیا، مگر پھر فوری فخرزمان 35 بالوں 63 رنز کی اچھی اننگ کھیل کر آؤٹ ہو گیا۔ فخر نے 7 چوکے اور 3 چھکے رسید کیے اور جنیدخان کی بال پر ایونس کے کیچ آؤٹ ہوا۔
جنید خان کے اسی اوور میں سلمان بٹ بھی 17 رنز بنا کر بولڈ ہو گیا۔ دو اوور بعد جب آغاسلمان بھی جنید خان کی بال پر عمرصدیق کے ہاتھوں صرف 2 رنز بنا کر آؤٹ ہو گیا تو اس وقت لاہور کا اسکور تیرھویں اوور میں صرف 106 تھا تو یوں لگ رھا تھا جیسے لاہور 200 کے تعقب میں بہت پیچھے رہ جائے گا۔
لاہور قلندر کی قسمت نے مزید اس وقت ساتھ چھوڑ دیا جب برینڈن ٹیلر 1 رنز بنا کر رئٹائرڈ ہرٹ ہو گیا۔
اس موقع پر ڈیوڈ وائسے کھیلنے آیا اور وکٹ پر دنیا کے بہترین بلے بازوں میں سے ایک اے بی ڈی ویلئیرز ابھی کریز پر موجود تھا۔ گو کہ اے بی کے پہلے دو میچ ناکام رہے مگر اب موقع تھا کیپٹن اننگ کھیلنے کا۔
چودھویں اوور کے اختتام پر لاہور قلندرز کا اسکور صرف 120 تھا اور ابھی مزید 81 رنز درکار تھے جبکہ صرف 6 اوورز باقی تھے۔
پندرھویں اوور میں ایک چھکے کی مدد سے 15 رنز بنے جبکہ سولہویں اوور میں 2 چھکوں کی مدد سے 17 رنز بنے۔ اور سترھویں اوور میں مزید ایک چھکے کی مدد سے 12 رنز بنے، مگر لاہور کو ابھی مزید 41 رنز درکار تھے جبکہ صرف 18 بال باقی تھیں۔
اٹھارویں اوور کی پانچویں بال پر گیم کا پانسہ پلٹ گیا۔ جنید خان نے وائسے کو آؤٹ کر دیا! اسکا کیچ بانڈری پر پکڑا گیا۔ مگر ٹی وی ری پلے نے بتایا کہ جنید کی بال نوبال تھی!
نوبال پر ایک فری ہٹ ملتی ہے۔ اور کیا فری ہٹ تھی۔ جنید کی بال کو اے بی ڈی ویلیئرز نے ریورس سویپ کرتے ہوئے بونڈری کے پار پھینک دیا۔۔۔ چھھھکا!!!
ایک اوور جو ملتان کے لیے فاتح ثابت ہو سکتا تھا، نو بال کی وجہ سے 16 رنز دے بیتھا۔ انیسویں اوور میں بھی 2 مزید چھکوں کی مدد سے 16 رنز بنے اور اب آخری اوور کی بات تھی جو کرسچن نے پھینکنا تھا۔ لاہورقلندرز کو چھ بالوں پر 9 رنز چاہیے تھے جیتنے کے لیے۔
کرسچن کی بالنگ زبردست تھی، کسی بھی قسم کا موقع دئیے بغیر صرف 6 رنز بنے اور اب آخر بال پر 3 رنز جتنے کے لیے اور 2 رنز برابر کرنے کے لیے چاھیے تھے۔ برابری کی صورت میں میچ سپر اوور کی جانب چلا جاتا ہے۔ لاہور کی خواہش یقیناً یہ ہو گی کی اے بی ڈی ویلئیرز بیٹنگ کر رھا ہوتا، مگر بیٹنگ پر وائسے تھا۔
کرسچن کی بال تھوڑی سے فل تھا اور وائسے نے پوری قوت سے بلا گھمایا – – – چھھککککککککککککککککککککککا!!!!
لاہورقلندرز نے ناقابلِ ممکن کو ممکن کر دکھایا! 200 کا پہاڑ جیسا اسکور ناموافق حالات میں پورا کر دکھایا۔۔۔ ناقابلِ یقین میچ!
شاید پی ایس ایل 4 کا سب سے بہترین میچ!!!
PSL4: Multan Sultans vs Lahore Qalandars
[mks_separator style=”solid” height=”2″]
نتیجہ: لاہور قلندرز نے میچ 6 وکٹس سے جیت لیا
[mks_separator style=”solid” height=”2″]
PSL4: Multan Sultans vs Lahore Qalandars
-
PSL4: Peshawar Zalmi vs Karachi Kings
PSL4: Peshawar Zalmi vs Karachi Kings
[mks_separator style=”solid” height=”4″]
پشاورزلمی بمقابلہ کراچی کنگز
[mks_separator style=”solid” height=”1″]
نواں میچ پشاورزلمی اور کراچی کنگز کے مابین شارجہ میں ہوا۔
کراچی نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کی۔
پشاور کی جانب سے حسبِ معمول کامران اکمل اور امام الحق نے اوپننگ کا آغاز کیا۔
جلد ہی پشاور مشکلات کا شکار ہو گئی جب کامران اکمل ایک بار پھر بغیر کوئی اسکور کیے عامرامین کی بال پر کلین بولڈ ہو گیا۔
عمرامین کھیلنے آیا اور 47 کے اسکور پر عمرامین اسکندررضا کی بال پر محمدرضوان کی بال پر اسٹمپ ہو گیا اس نے 15 رنز بنائے۔ اگلی چھ بالوں پر مزید 2 وکٹ گرے گئے اور میڈش اور پولارڈ بغیر کوئی اسکور کیے اسکندررضا اور عماد وسیم کے ہاتھوں بولڈ ہو گئے۔ پشاور کا اسکور 48 تھا اور 4 کھلاڑی آؤٹ ہو گئے۔
ڈاؤسن اور امام الحق نے اننگ کو سہارا دیا اور اسکور سترھویں اوور میں 124 تک پہنچا دیا مگر سترھویں اوور کی پہلی بال پر ڈاؤسن اور پانویں بال پر امام الحق بالترتیب 43 اور 56 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے۔ اٹھارویں اوور کی تیسری بال پر وھاب ریاض صفر اور انیسویں اوور کی تیسری بال پر حسن علی 2 آؤٹ ہو گئے۔ اس وقت اسکور 141 رنز تھا۔ آخری اوور میں ڈیرن سمی نے چند ایک شاٹ کھیل کر اسکور 153 تک پہنچا دیا۔
جواب میں کراچی کی اننگ کی ابتدا تباہ کن ہوئی۔ لیونگسٹون حسن علی کی پہلی ہی بال پر ایل بی ڈبلیو ہو گیا۔ اور کراچی کی بیٹنگ کا اہم ترین کھلاڑی بابر اعظم بھی صرف ایک رنز بنا سکا اور حسن علی کی شاندار فیلڈنگ پر رن آؤٹ ہو گیا۔ آسٹریلیا سے آنے والے بین ڈنک نے 12 رنز بنائے اور کامران اکمل کے ہاتھوں وھاب ریاض کی بال پر کیچ آؤٹ ہو گیا۔
کولن انگرام کے سر پر وھاب ریاض کی ایک زبردست تیز گیند لگی اور جو کچھ دیر لڑکھڑاتا رہا، اس نے 21 رنز بنائے اور رن آؤٹ ہو گیا۔ اسکندررضا کی بیٹنگ انتہائی مایوس کن تھی اور یون لگ رھا تھا کہ وہ ٹی20 نہیں ٹٰسٹ میچ کھیلنے آیا ہے۔ یوں اس نے 26 بالوں پر صرف 14 رنزبنائے اور عمید آصف کی بال پر آؤٹ ہو گیا۔
محمدرضوان اور کپتان عماد وسیم نے ذمہ دارانہ بیٹنگ کا مظاہرہ کیا مگر اس وقت تک کراچی کی اننگ کی تباھی تقریباً مکمل ہو چکی تھی۔ انتہائی کمزور اور مایوس کن بیٹنگ سے رنز بننا بہت مشکل تھے۔ کراچی کے 100 رنز 17ویں اوور میں جا کر بنے جو کہ اس فارمیٹ کی کرکٹ کے لیے انتہائی مایوس کن تھے۔ اور یوں آخری 2 اوورز میں 53 رنز درکار تھے جو کہ تقریباً نا ممکن لگ رھا تھا۔
اور ایسا ہی ہوا کہ اٹھارویں اوور کی دوسری بال پر عماد وسیم حسن علی کی بال پر 26 رنز بنا کر آؤٹ ہو گیا۔ اسی اوور کی چوتھی بال پر عامریامین بغیر کوئی اسکور کیے آؤٹ ہو گیا، ڈاؤسن نے خوبصورت کیچ لیا۔ 107 پر 7 آؤٹ اور اسی اوور کی آخری بال پر محمدعامر بھی بغیرکوئی اسکور کیے وھاب ریاض کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہو گیا۔ حسن علی کی چوتھی وکٹ۔
بیسویں اوور میں پولارڈ کی دوسری بال پر عمرخان بھی بغیر کوئی اسکور کیے حسن علی کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہو گیا۔ 107 پر 9 وکٹ۔
کراچی کی اننگ میں ایک بھی چھکا نہیں تھا اور یہ پی ایس ایل کی تاریخ کی پہلی اننگ تھی جس میں ایک بھی چھکا شامل نہیں تھا۔ انتہائی مایوس کن اننگ۔ کوئی بھی بیٹسمین کبھی بھی کسی بھی مقام پر کوئی بھی خاطر خواہ اننگ جوڑنے میں کامیاب نہ ہوا۔ کراچی میں یوں لگتا تھا کہ صرف نام کے کنگز شامل ہیں مگر میدان میں بھیگی بلیاں بن کر ایک بھی کھلاڑی اس قابل نہ تھا کہ کوئی قابلِ ذکر اسکور کر پاتا۔
یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ پشاور کی بالنگ زبردست تھی۔ خاص کر قومی ٹیم کا حسن علی بھی زبردست فارم میں تھا۔ اسکی بولنگ نے کراچی کو چلنے ہی نہیں دیا۔
PSL4: Peshawar Zalmi vs Karachi Kings
[mks_separator style=”solid” height=”2″]
نتیجہ: پشاورزلمی نے میچ 44 رنز سے جیت لیا
[mks_separator style=”solid” height=”2″]
PSL4: Peshawar Zalmi vs Karachi Kings
-
PSL4: Quetta Gladiators vs Multan Sultans
PSL4: Quetta Gladiators vs Multan Sultans
[mks_separator style=”solid” height=”4″]
کوئٹہ گلاڈیئٹرز بمقابلہ ملتان سلطانز
[mks_separator style=”solid” height=”1″]
ایک دن کے وقفے کے بعد پی ایس ایل کا آٹھواں میچ کوئٹہ گلاڈیئٹرز اور ملتان سلطانز کے مابین ہوا۔
کوئٹہ نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کی۔
ملتان کی جانب سے بیٹنگ کا آغاز شان مسعود اور جیمز ونس نے کیا۔ دونوں کھلاڑی ابتدأ میں جارحانہ انداز اپنائے ہوئے تھے خاص کر ونس، جس نے 17 گیندوں پر 28 رنز بنائے جس میں 6 چوکے شامل تھے۔ 34 کے مجموعی اسکور پر ونس محمد نواز کے بال پر ایل بی ڈبلیو ہو گیا۔ شان مسعود نے ایونس کے ساتھ ملکر اسکور 54 تک پہنچا دیا مگر پھر دونوں بیٹسمین یکے بعد دیگرے آؤٹ ہو گئے۔
مسعود کو فواداحمد کی بال پر سرفراز نے اسٹمپ کیا – اسنے 18 رنز بنائے جبکہ ایونس رن آؤٹ ہوا اس نے صرف 10 رنز بنائے۔
اس موقع پر ملتان سلطانز کا کپتان شعیب ملک کھیلنے آیا اور کرسچن کے ساتھ ملکر ایک لمبی پارٹنرشپ کی۔ سولہویں اوور میں جب اسکور 137 ہوا تو لگ رھا تھا کہ ملتان ایک بڑا اور اچھا اسکور کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
مگر شعیب تنویرسہیل کی بال پر احسن علی کے ہاتھوں 53 رنز کی اچھی اننگ کھیل کر آؤٹ ہو گیا۔ شعیب نے 4 چوکے اور 2 چھکے رسید کیے۔
اسکے بعد ملتان کوئی خاطر خواہ کھیل نہ پیش کر سکی۔ کرسچن 142 کے اسکور پر 18 رنز بنا، آفریدی پہلی بار پر بغیر کوئی اسکور کیے، آندرے رسل 18 اور تیل میں کوئی بھی 3 سے آگے نہ بڑھ سکا۔ یوں ملتان اپنے مقررہ 20 اوورز میں 160 رنز بنا سکا۔
کوئٹہ کی جانب سے محمد عرفان اور غلام مدثر نے 2 2 وکٹ لیے۔
کوئٹہ کی جانب سے۔ اسٹیوواٹسن اور احسن علی نے اننگ کی ابتدا کی۔ واٹسن خاص کر جارحانہ انداز میں تھا اور صرف چار اوورز میں کوئٹہ کا اسکور 39 ہو گیا اس موقع پر احسن علی محمدعرفان کی بال پر محمدالیاس کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہو گیا، احسن نے 9 رنز بنائے۔
رائیلی روسو اور واٹسن نے زبردست پارٹنرشپ کرتے ہوئے ملتان کو تگنی کا ناچ نچایا اور اسکور آناً فاناً 95 پر پہنچا دیا۔ اس اسکور پر واٹسن صرف چالیس بالوں پر 11 چوکوں کی مدد سے 61 رنز بنا کر آؤٹ ہوا۔
ان فارم عمراکمل رائیلی روسو کے ساتھ کھیلنے آیا اور دونوں کھلاڑی پراعتمادی سے بیٹنگ کرتے رہے۔ ملتان کی بالنگ ان کے لیے کسی قسم کا کوئی خطرہ پیدا نہ کر سکی اور اٹھارویں اوور کی تیسری بال پر ہی کوئٹہ نے اپنا مطلوبہ ھدف دو وکٹوں کے نقصان پر پورا کر لیا۔ عمراکمل 17 اور رائیلی روسو 67 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔
کوئٹہ کی ٹیم ابھی تک کے تمام میچز اور تمام ٹیموں میں سب سے بہترین اور بیلنسڈ ٹیم نظر آ رھی ہے۔ کوئٹہ کے پاس بالنگ کیساتھ ساتھ ایک مضبوط بیٹنگ لائن بھی ہے۔ فاسٹ بولنگ ہو جا اسپنزز کوئٹہ کی ٹیم مضبوط نظر آ رہی ہے اور اپنے تینوں میچ جتنے میں کامیاب رہی ہے۔
PSL4: Quetta Gladiators vs Multan Sultans
[mks_separator style=”solid” height=”2″]
نتیجہ: کوئٹہ نے میچ 8 وکٹ سے جیت لیا
[mks_separator style=”solid” height=”2″]
PSL4: Quetta Gladiators vs Multan Sultans
-
Hindustani Jangi Junoon
Hindustani Junoon
پلوامے دھماکہ
پلوامے میں دھماکے سے 40 کے لگ بھگ ہندوستانی فوجی مارے گئے۔Hindustani Junoon
ہندوستانی حکومت اور عوام اسے پاکستان سے منسلک کر کے ای ایسا طوفانِ بدتمیزی برپا کر رکھا ہے کہ الامان الحفیظ۔
ہندوستان کے دماغ پر ایک مدت سے جو جنگ کا بھوت سوار ہے اسکے پیچھے ایک وجہ ہے۔ یاد رھے کہ ہندوستان نے 9/11 کے ایک ہی ہفتے بعد اپنا ہی مسافر طیارہ اغوا کروا کے، تقریباً امریکہ کے قدموں میں گڑگڑا کر پاکستان کو بھی افغانستان کے ساتھ شامل کر کے پاکستان پر حملے کروانے کی حتمی الامکان کوشش میں تھا۔ اور انکی بھرپور سفارتی کوشش تھی کہ امریکہ پاکستان پر حملہ کرے اور ہندوستان اسکا ساتھ دے، اسکے لیے وہ امریکہ کے قدموں میں مظلوم بن کر بیٹھ چکا تھا۔ Hindustani Junoon
اس واقع پر بی بی سی نے تبصرہ کیا کہ یہ دنیا کا سب سے مضہکہ ترین اغوا تھا! یہ اوقات ہے ہندوستانیوں کی۔ Hindustani Junoon
اسکے بعد ہندوستان نے اسلحے کے انبار لگا دئیے۔ Hindustani Junoon Hindustani Junoon Hindustani Junoon
مغرب کی شہ
ایک وقت سے مغرب کی ہندوستان کے اوپر ایک خاص عنایت ہے۔ اسی خاص عنایت کے بل بوطے پر ہندوستانی ایک ایسی ہوا میں اڑ رہے ہیں کہ جہاں سے گرے تو انکے پڑخچے اڑ جائیں گے۔ اور کسی کو گرنے میں دیر نہیں لگتی، ہندوستان تو پھر بھی شیشے کے اس گھر کی مانند ہے جو اپنے آپ کو خوبصورت ثابت کرنے کی کوشش میں ہے مگر اندر ہی انتہائی غلیظ اور بدبودار ہے۔ ہندوستان جانتا ہے کہ کشمیر تو صرف ایک اسٹیٹ ہے اور بہت ساری اسٹیٹس میں آزادی کے آگ دبی ہوئی ہے۔
ایسے میں اگر پاکستان سے جنگ کا پنگا لیا تو اچھا نہ ہو گا، بلکہ وہ کئی اسٹیٹس جو اس آگ میں دبی پڑی ہیں ان میں یکدم جان آ جائے گی۔
سکھوں کا قتل
جان آنی بھی چاہیے۔ کیا ہندوستانی سمجھتے ہیں کہ سکھوں نے وہ 4 سے 5 ہزار سکھوں کا قتل جو گولڈن ٹمپل میں ہوا، اسے بھول گئے ہیں؟ سکھ قوم ایک چنگاڑی کی منتظر ہے، جب وہ چنگاڑی بھڑک اٹھی ہندوستان کہیں کا نہیں رہے گا۔ آسام میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل، گجرات مین قتل اور کئی اسٹیٹس اسی طرح تڑپ رہی ہیں۔ ہندوستان آگ سے کھیل رہا ہے۔ سکھوں کے قتلِ عام کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ آزادی کے آگ ٹھنڈی پڑ گئی ہے مگر نہیں ٹھنڈی نہیں پڑی صرف دبی ہے۔ اور کشمیری شاید ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں ہے – کشمیری شاید پنجاب کے سکھ نہیں جو آسانی سے اپنی اموات کو بھول جائیں گے۔ کشمیری ہندوؤں کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان دھشتگردی کی ٹرم عام ہونے سے بہت پہلے ہی دھشتگرد ریاست بن چکی تھی۔ جب کوئی اپنے ہی ملک میں کسی کے مذہبی دوارے میں جو امن کی شانتی کی علامت ہوتا ہے اس میں اپنے دہشتگرد فوجی داخل کرا کے ہزاروں انسان مروا دے تو وہ ریاستی دہشتگرد ہوتی ہے، ہندوستان اپنے کالے منہ سے یہ دھبہ نہیں دھو سکتا کہ وہ ریاست دھشتگردی کی اپنی مثال آپ ہے۔ گجرات میں جو قتل غارت کروائی گئی کیا وہ دھشتگردی نہیں تھی؟ جو آسام میں ہزاروں انسان مع بچے دھشتگرد ہندوؤں نے قتل کیے کیا وہ دھشتگردی نہیں تھی؟
رہی بات پاکستان کی تو ہندوستان میں دھشتگردیاں کروانا کسی صورت سودمند نہیں۔ پاکستان میں خود ہندوستانیوں کی دھشتگردیاں عروج پر رہی ہیں، کلبھوشن یادیو کا کیس آج ہی عالمی عدالت میں چل رہا ہے کیا وہ ہندوستانی نہیں؟ اسکو دہشتگردی کس نے سکھائی ہے؟
عمران خان کا خطاب
آج عمران خان نے ایک مختصر سا خطاب کیا اور جو بھی کہا سو فیصد درست اور بجا کہا۔ ہندوستانی ڈائلاگ کی جانب آنا ہی نہیں چاہتے کیونکہ انکے گھر میں دانے ہیں انکے جاھل بھی سیانے ہیں۔ ایسے ہی کچھ جاھل نہ سہی مگر کم ظرف لوگ اس وقت ہندوستانیوں کو طیش دلا رہے ہیں اور اپنے الیکشن کو کامیاب کرانے کے لیے ہر طرح کے غلیظ اور گھٹیا حربے کی جانب جا رہے ہیں۔ عمران خان نے پہلے ھی کہا تھا کہ “چھوٹے قد کے لوگ بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں”۔
کبھی کسی شے کا بائیکاٹ کبھی کسی کا – میں کہتا ہوں کہ اچھا ہے کریں بائیکاٹ تم کیا سمجھتے ہو کہ پاکستان تمہارے بغیر چل نہیں سکتا؟ تمہارے ساتھ جو جو ڈیلییں نوازشریف نے کی ہوئی ہیں ہمیں انہیں کینسل کرنا چاھیے، ٹماٹروں کی بات ہے تو ہماری سرزمین میں کیا ٹماٹر نہیں پیدا ہو سکتے؟ ہمیں تو خوشی ہو گی کہ ہم اپنی کھیتوں کو آباد کریں، کم امپورٹ کریں۔۔۔۔ یہ سب گھٹیاپن کی باتیں ہیں جو تم کر رہے ہو۔ حقیقیت یہ ہے کہ تمہارے اندر ایک کمپلیکس ہے کہ تم بڑا بننا چاھتے ہو مگر حقیقت میں تم گند کی موری سے بھی چھوٹے ہو!
کمظرف!
مجھے افسوس ہی نہیں ملال ہے پاکستانی قوم پر! یہ وہ قوم ہے جو سمجھتی ہے کہ بالی ووڈ میں حاضری نہ دی تو یہ لوگ فنکار نہیں کہلا سکتے حالانکہ آج جو سلوک ان کے ساتھ ہو رہا ہے وہ اسی کے مستحق ہیں۔ میں نے کبھی انڈین فلم، ڈرامہ یا گانا نہیں سنا اور مجھے آج تک اس کی کمی محسوس نہیں ہوئی جبکہ کہ میں نے تقریباً تمام عمر ہندوستانی آئی ٹی کنسلٹنٹ کے ساتھ ایک ہی کمرے میں بیٹھ کر کام کیا ہے۔ مجھے نفرت ہے تمہاری ایک ایک بات سے۔ میں محمد رفیع کو نہیں سنو گا تو میری زندگی میں کمی نہیں!!! میں تمہاری تقریباً ننگی ناچتی ہوئی کنجریاں نہیں دیکھوں گا تو مجھے کمی نہیں ہو گی۔ یہ کمی ان کمظرفوں کو ہی ہو سکتی ہے جو اس کے بغیر رہ نہیں سکتے! وہ کمظرف جو آج فیس بک یا آگے پیچھے سوشل میڈیا پر خود کو پاکستانی ثابت کر رہے ہیں جو پھر انہیں فلموں اور اسٹارپلس کے ڈراموں سے اپنا دل بہلایا کریں گے۔
رہی بات جنگ کی تو کر لیں! جنگ کر کے دیکھ لیں! کیا ہو گا؟ ایک ایٹم بم ادھر گرے گا ایک ادھر – عالمگیر تباھی ادھر ہو گی عالمگیر تباھی ادھر ہو گی – کیا تباھی جنگ کی کامیابی کا نتیجہ ہے؟ عمران خان کا ایک ایک لفظ درست ہے۔۔۔
[embedyt] https://www.youtube.com/watch?v=6ZhPuFLnfqM[/embedyt]
[mks_separator style=”solid” height=”2″]
بقلم: مسعودؔ
[mks_separator style=”solid” height=”2″]
-
Saudi Mehrbaaniyaan
Saudi
ایک چبھتی ہوئی حقیقت
سعودی ولی عہد پاکستان سے اپنا کامیاب دورہ کر کے واپس روانہ ہو گیا۔
“ہم پاکستان کو انکار نہیں کر سکتے” – ولی عہد نے مسکراتے ہوئے فرمایا اور یہ بھی وعدہ کیا کہ عمران خان کی حکومت جو کہے گی سعودی عرب اس کو تسلیم کرے گا۔
مزید یہ کہا کہ: “مجھے سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر سمجھا جائے” – مزید یہ بھی کہا کہ “پاکستان مستقبل میں ترقی کی راہوں پر گامزن ہے اور ہم اسکا حصہ بننا چاھتے ہیں”۔
اتنی بڑی تبدیلی کیوں اور کیسے؟ i
یاد رکھیں یہ وہی سعودی عرب ہے جس نے پاکستان کے ساتھ سوتیلی ماں کا سا رویہ اختیار رکھا۔ ہندوستان کے لیے نرم گوشہ رکھا۔ پھر اچانک اتنی بڑی تبدیلی کیوں اور کیسے رونما ہو گئی۔
اس میں کچھ بھلا ہو ہمارے سابقہ رہنماؤں کا جن کی فطرت جی حضوری کر کے پیسہ بٹور کر اپنے گھر بھرنا، جھوٹ اور فراڈ اور عربوں کی دلالی کر کے اپنی اولادوں کا مستقبل رشن کرنا ھی تھا۔ وہ رہنما جنہیں پاکستان کی رتی برابر فکر نہیں تھی اور جو پیسہ عربوں سے ملتا وہ انہی کے ملک میں لے جا کر اپنے محلات اور بزنس ایمپائر کھڑتے کر لیتنے۔
غیورلیڈر
اب پاکستان کے پاس ایک ایسا رہنما ہے جو باغیور ہے۔ جو پراعتماد ہے۔ جو اپنے ملک کو بہتری کی جانب لے جانا چاھتا ہے۔ جو اس ملک کے وسائل کو استعمال کر کے دنیا کو اس میں سرمایہ کاری کے لیے دعوت دینا چاھتا ہے۔ جو باھر کا پیسہ اپنے ملک میں لگا کر اس ملک کی ساکھ کو بہتر بنانا چاھتا ہے۔
اس پر دنیا کو یقین ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ عمران خان کرپٹ نہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ عمران وہ واحد لیڈر ہے جو سچ بولتا ہے۔ سچ پر قائم رہتا ہے۔ جس پر اعتماد کیا جا سکتا۔ مگر کیا یہی وہ وجوھات ہیں جن پر سعودی ولی عہد بذاتِ خود، نفسانفیس تشریف لایا اور اتنی بڑی سرمایہ کاری کی پیشکش کر دی؟ اور سعودی جیلوں مٰیں مقیم پاکستانیوں کو بھی رہا کر دیا؟ کیا یہ صرف عمران خان کی وجہ سے ہے؟ – نہیں ایسا نہیں!
مہم
سچ بھیانک ہے! اور سچ یہ ہے کہ مغربی دنیا میں سعودی عرب کے خلاف ایک مہم شروع ہو چکی ہے۔ امریکہ جو تاحال اسرائیل کی طرح سعودی عرب پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے عنقریب یہ ھاتھ اٹھانے والا ہے۔ امریکہ کا طریقۂ کار ہے کہ جب بھی کسی ملک کو جنگ میں ملوث کرتا ہے پہلے اس کے ساتھ ہمدری کرتا ہے، اس کو میٹھی گولیاں کھلاتا ہے اور پھر یکدم انتشار کی ایسی چنگاڑی چھوڑ دیتا ہے کہ بچنا مشکل ہو جااتا ہے۔ وہی میٹھی گولیاں ایک طرف سعودی عرب اور دوسری جانب ایران کو کھلائی جا رھی ہے۔
عنقریب ان گولیوں کی تاثیر ابھرنے والی ہے اور دونوں ممالک کو ایک خطرناک جنگ میں ملوث کر دیا جائے گا۔
یہ بات سعودی عرب جانتا ہے! اور اسے اپنے لیے حریف بنانے کے لیے پاکستان کا ساتھ چاہیے۔ پاکستان وہ ساتھی بننے جا رہا ہے۔ اور ایک ایسی جنگ کا حصہ بننے جا رھا ہے جو ہماری جنگ نہیں – نہ ہی یہ جنگ سعودی عرب کی یا ایران کی ہے – مگر چونکہ مسلمان ایک مدت سے جاھلیت کی اندھیروں میں کھو چکا ہے، اسے اب حقیقت نظر نہٰں آئے گی۔
ادھر ہندوستان بھی اس بات کی تیاری کر رہا ہے کہ پاکستان کو کسی طرح جنگ میں ملوث کیا جائے۔
پاکستان اس وقت بہت سخت تشویشناک صورتحال میں ہے۔ ایک بھی لغزش خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ سعودی مہربانیاں بغیر کسی لالچ کے نہیں!
اللہ پاکستان کی حفاظت فرمانا – آمین۔Blog: Saudi Mehrbaaniyaan
[mks_separator style=”solid” height=”2″]
بقلم: مسعودؔ
[mks_separator style=”solid” height=”2″]
Blog: Saudi Mehrbaaniyaan. Mohammad Bin Salman visits Pakistan
-
Abhi Ya Kabhi Nahin
Abhi Ya Kabhi Nahin
سعودی ولی عہد کے دورۂ پاکستان سے آج پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ98-1997 میں جب ابھی انٹرنیٹ اپنی بچگانہ عمر میں تھا۔ آئی ٹی کا بوم ابھی افق پر منڈلا ہی رھا تھا۔ مغربی کمپنیاں سستی مگر میعاری منڈیوں کی تلاش میں ایک ایک کر کے نکلنا شروع کیا تھا۔ ڈیٹابیس کی دنیا کا ایک بہت بڑا نام اوراکل Oracle کا سی ای او پاکستان آیا! اسکا پاکستان کا دورہ اس نیت سے تھا کہ پاکستان میں اوراکل کی ریسرچ لبرٹی قائم کی جائے۔
مگر پاکستان میں اسوقت ناسوروں کی ایسی حکومت تھی جو پچھلے دس سال سے ایک دوسرے پر توہ لعنت کر کے ، ایک دوسرے پر تھوک تھاک کر، ایک دوسرے کو الف للا ننگا کر کے حکومت کرتے تھے، اور پھر مشرف آ گیا۔ Abhi Ya Kabhi Nahin
اوراکل کے سی ای او نے پاکستان کو الوداع کہا اور ہندوستان جا کر دنیا کی بہت بڑی ریسرچ کمپنیوں میں سے ایک بنائی۔ اسکے بعد آئی ٹی کا ایسا بوم آیا کہ دنیا کی 10 میں سے 9 بڑی کمپنیوں نے ہندوستان کا رخ کیا اور ہندوستانی معاشی حالت کو وہ تقویت پہنچائی جو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ Abhi Ya Kabhi Nahin
اوراکل کے سی ای او کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں مگر اس ملک کے سیاسی حالات اور عدم استحکام ہمیں ایسا کرنے سے روک رہا ہے۔
پیچھا رہ گیا پاکستان! اپنی سیاسی ڈھانچے اور سیاستدانوں کی ناسورانہ ذہنیت نے پاکستان کو کبھی اس عروج پر پہنچنے ہی نہیں دیا۔ پھر انہی سیاستدانوں نے اپنے ضمیروں کو بیچ کر پاکستان کو مزید نقصان پہنچایا اور اس ملک کے نوجوانوں میں جو قابلیت، صلاحیت اور ہنر و فکر تھا وہ کبھی بروئے کار لایا ہی نہ جا سکا۔ جلتی پر تیل یہ کہ ان میں سے جو قابل تھے انہیں مغربی ممالک ہی اپنی خاص اسکیموں کے تحت لے اڑتے اور باقی جو رہ جاتا وہ کنڈم مال! Abhi Ya Kabhi Nahin Abhi Ya Kabhi Nahin
صد افسوس!
آج ایکبار پھر پاکستان کو موقع مل رہا ہے۔ پاکستان کے مستقبل تابناک ہے مگر اس کو ایک زبردست مضبوط حکمران کی ضرورت ہے، ساتھ ہی ساتھ عوام کے اندر یہ شعور بیدار کرنے کے ضرورت ہے کہ “ناؤ اور نیور” – ابھی یا کبھی نہیں! Abhi Ya Kabhi Nahin Abhi Ya Kabhi Nahin
اے قوم تمہارے پاس موقع ہے، تمہاری صلاحیتوں سے دنیا مستفیض ہونا چاہتی ہے، کیونکہ تمہارے اندر وہ قابلیت ہے جو دنیا کو چاہیے۔ اے قوم اپنے اندر نفرت، کینہ اور ہوس کی آگ کو بجھا کر اپنے اندر چھپے ہوئے ٹیلنٹ کو ظاہر ابھارو! اللہ تعالیٰ نے تمہیں عمران خان کی صورت میں ایک ایسا لیڈر دیا ہے جس کے دل میں تمہارے دکھ ہے درد ہے۔ اسکی رگ رگ تمہارے غم سے تڑپتی ہے۔ وہ لیڈر جو پردیسیوں کے حالات پر آنسو بہائے وہ کسی صورت مکار نہیں ہو سکتا۔ اس نے اپنا سکھ چین اس وقت برباد کیا ہے جب وہ چاھتا تو امریکہ، کینیڈا، برطانیہ ، آسٹریلیا جیسے ممالک میں امن و شانتی کی زندگی گزار رہا ہوتا۔
پاکستان کو اس تمہارے اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔ میں ایک پردیسی ہونے کے ناطے سے کہ رہا ہوں کہ اپنے ملک سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہوتی ، اپنے ملک کی قدر کرو اور اپنے لیڈر عمران خان کا ہاتھ تھام لو۔ میرا ایمان ہے کہ اگر 98-1997 میں عمران خان پاکستان کا قائد ہوتا تو کیا اوراکل کیا مائکروسافٹ اور کیا ایس اے پی تمام کی تمام ریسرچ لبرٹیاں پاکستان میں ہوتیں۔ آج پاکستان کی آئی ٹی صنعت بوم پر ہوتی۔ عمران خان کے 5 سال پچھلے 35 سالوں پر بھاری ہونگے اسکو کام کرنے کا موقع اور وقت دو!
[mks_separator style=”double” height=”2″]
بقلم: مسعودؔ
[mks_separator style=”double” height=”2″]